نیب کا متعدد انکوائریز بند، نئی تحقیقات شروع نہ کرنے کا فیصلہ
اسلام آباد: جسٹس (ر) جاوید اقبال کی سربراہی میں ہونے والے قومی احتساب بیورو (نیب) کے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں متعدد تحقیقات کو بند کرنے اور نئی تحقیقات شروع نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
جن افراد کے خلاف تحقیقات بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ان میں پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج (پی ایم ڈی سی) کے سابق رجسٹرار ڈاکٹر احمد ندیم اکبر، نیسپاک کے جنرل منیجر عمران تاج، نیسپاک کے ایسوسی ایٹ انجینئر آفتاب احمد، میسرز کنسٹرکشن ایکسپرٹ کے پروپرائٹر ولی محمد ودیگر ، خیر پور، حلقہ آب پاشی، سکھر کے سابق سپرنٹنڈنگ انجینئر ڈاکٹر پروین نعیم شاہ و دیگر، شاہ عبدالطیف یونیورسٹی کے وائس چانسلر منظور احمد ملک و دیگر کے علاوہ جیکب آباد کے ایس ایس پی آفس کے سابق شیٹ کلرک اور دیگر شامل ہیں۔
نیب کی جانب سے جاری کردہ باضابطہ اعلامیے کے مطابق اجلاس میں ’عدم شواہد کی بنا پر‘ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر)، ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی (ڈی ایچ اے) کراچی، پورٹ قاسم اتھارٹی، کراچی پورٹ ٹرسٹ اور دیگر محکموں کے حکام، سابق ڈائریکٹر آف نارا کنال سعید احمد جاکھرانی، محکمہ آب پاشی سندھ کے افسران کے خلاف انکوائری بند کرنے کی منظوری دی گئی۔
ہی بھی پڑھیں: نیب بیوروکریسی کو ہراساں نہ کرے، وزیراعظم
اعلامیے میں کہا گیا کہ انسداد بدعنوانی کا ادارہ پالیسی کے تحت اس بات کا پابند ہے کہ ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں کیے گئے فیصلوں کی تفصیلات سے عوام کو آگاہ کرے۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ یہ تفاتیش و تحقیقات الزامات کی بنیاد پر جاری تھیں اس لیے الزامات کو حتمی نہیں سمجھنا چاہیے کسی بھی ملزم کے خلاف کارروائی کا آغاز دونوں اطراف کا نقطہ نظر جاننے کے بعد کیا جاتا ہے۔
اجلاس میں التطمش میڈیکل سوسائٹی کے مالکان/ڈائریکٹرز اور دیگر کے خلاف کیس کی مزید تحقیقات اور سابق قائم مقام انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ غلام شبیر شیخ اور دیگر کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال پر انکوائری جاری رکھنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔
مزید پڑھیں: بیوروکریسی کی شکایتیں کسی بڑے تنازع کا پیش خیمہ؟
علاوہ ازیں نیب ایگزیکٹو بورڈ نے سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت حکومتِ سندھ اور کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (کے ڈی اے) کے افسران/ حکام کے خلاف انکوائری بند کرنے کی بھی منظوری دی گئی۔
بعدازاں چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ نیب کی ترجیح لٹیروں سےلوٹی ہوئی رقم نکلوانے کے ساتھ ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’نیب کی اب تمام تر توجہ میگا کرپشن کیسز کو منطقی انجام تک پہنچانے پر ہے‘۔
جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ احتساب سب کا کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے نیب نے گزشتہ تقریباً 2 سال کے عرصے میں براہِ راست یا بلا واسطہ 71 ارب روپے برآمد کیے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: نیب قانون کی قلابازی اور ہمارے ادارے
انہوں نےبتایا کہ عالمی اقتصادی فورم نے اپنی حالیہ رپورٹ میں بیورو کی کارکردگی کو سراہا تھا اور مجموعی طور پر نیب کے کیسز میں سزا کی شرح 70 فیصد ہے۔
چیئرمین نیب کا مزید کہنا تھا کہ نیب نے گزشتہ 23 ماہ کے عرصے میں 610 کرپشن ریفرنسز دائر کیے ہیں اور یہ مضاربہ/مشارکہ اسکینڈل میں 44 زیر حراست ملزمان سے عوام کی لوٹی گئے اربوں روپے کی رقم برآمد کرنے لیے کوشش کررہا تھا۔
انہوں نے کہا کہ 9 کھرب روپے مالیت کے ایک ہزار 235 کرپشن ریفرنسز اس وقت متعدد احتساب عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔
انہوں نے نیب کے تمام ڈائریکٹر جنرلز کو ہدایت کی کہ شکایت کی تصدیق کا عمل، انکوائریز اور تفتیش مقررہ مدت میں مکمل کی جائیں۔
یہ خبر 14 نومبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔