عدالتی حکم کے باوجود نواز شریف کے باہر جانے پر شرط ٹھیک نہیں، پی ٹی آئی رہنما
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے تعلق رکھنے والے سینئر وکیل اور سپریم کورٹ بار کے سابق صدر علی ظفر اور اتحادی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے سینیٹر بیرسٹر سیف نے حکومت کی جانب سے نواز شریف کا علاج کے لیے باہر جانے کی شرط کو غلط قرار دے دیا۔
نجی ٹی وی جیو نیوز کے پروگرام 'کیپٹل ٹاک' میں گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ نواز شریف کو باہر جانے دینے کا فیصلہ 'قانون کے مطابق ہے کیونکہ جب عدالت ایک بار ضمانت دے اور کوئی شرط نہ لگائے تو حکومت کے پاس ان کا نام ای سی ایل پر رکھنے کا کوئی جواز نہیں بنتا'۔
حکمراں جماعت سے تعلق رکھنے والے وکیل نے نواز شریف کے حوالے سے فیصلے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ 'عدالت نے انہیں باہر جانے پر کوئی شرط نہیں لگائی تو حکومت کو ان کانام ای سی ایل سے نکالنا میرے مطابق ٹھیک فیصلہ ہے، دوسرا سوال پیدا ہوتا ہے شرط عائد کرنا کہ آپ زرضمانت دے کر چلے جائیں تو اس پر مجھے کوئی قانون یا رول نظر نہیں آیا جس کے تحت کوئی حکومت یا کابینہ ای سی ایل سے نام نکالتے ہوئے اس قسم کی شرط عائد کرے’۔
مزید پڑھیں:نواز شریف کو 4 ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی مشروط اجازت
نواز شریف کو دستیاب آپشن کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 'پہلا آپشن یہ ہے کہ وہ بونڈ دے کر باہر چلے جائیں اور بعد میں عدالت میں چیلنج کریں، دوسری صورت یہ ہے کہ وہ کہیں کہ میں اس شرط کو عدالت میں چیلنج کرتا ہوں تو عدالت یہ پوچھے گی کہ کس قانون کے تحت یہ شرط عائد کی گئی ہے'۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ 'حکومت یہی کہے گی بہت سارے لوگ باہر جاتے ہیں اور واپس نہیں آتے اس لیے حکومت نے سوچا کہ اگر وہ واپس نہیں آتے ہیں تو ہم ایسی پابندی لگائیں کہ جتنا جرمانہ ہوا ہے اس کے برابر رقم لے لیں تو یہ مقصد تو اچھا ہے لیکن قانون اس کی اجازت نہیں دیتا'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہوسکتا ہے کہ عدالت کہے کہ ای سی ایل سے نام نکالنے کے لیے شرط غیر قانونی ہے لیکن اب ہم شرط ڈال دیتے ہیں اور ممکن ہے کہ عدالت کی طرف سے ایک شرط آجائے'۔
'یہ شرط قانون میں اختراع ہے'
اس موقع پر ایم کیو ایم پاکستان کے سینیٹر بیرسٹر سیف نے کہا کہ 'حکومت کی طرف سے 7 ارب کی ایک ہی شرط ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'کسی کا نام ای سی ایل سے ہٹانے کے لیے ہمارے قانون کے آخر میں صرف ایک جملہ ہے جس میں لکھا گیا ہے کہ وفاقی حکومت اطمینان کے لیے کوئی شرط یا طریقہ کار طے کرسکتی ہے لیکن بونڈز یا زرضمانت یا سیکیورٹی نام کی کوئی چیز نہیں ہے، اطمینان کے کئی اور طریقے ہوسکتے ہیں'۔
انہوں نے کہا کہ 'یہاں پر ایک اور صورت ہے جس کو ہم نظرانداز نہیں کرسکتے ہیں کہ میاں صاحب کا مقدمہ ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے اور اس کے علاوہ ہائی کورٹ نے انہیں ضمانت پر رہا کردیا ہے ہیں'۔
حکومتی اتحادی جماعت کے سینیٹر نے کہا کہ 'جب ضمانت پر رہا کیا گیا ہو تو اس کے بعد ضمانت کی سطح پر ایک اور اضافی شرط عائد کرنا قانون میں ایک اختراع ہے کیونکہ اس سے پہلے اس قسم کے معاملات میں ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی'۔
یہ بھی پڑھیں:نواز شریف کا بیرون ملک علاج، (ن) لیگ نے حکومتی شرط مسترد کردی
انہوں نے کہا کہ 'اگر معاملے کو عدالت میں چیلنج کیا گیا تو کورٹ یا تو عدالت اس کو مسترد کرے گی کہ آپ یہ شرط نہیں لگا سکتے کیونکہ کسی کی صحت کا مسئلہ ہو تو یہ بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ ہیں، یہ وہ حقیقت ہے جس کو حکومت تسلیم کر رہی ہے کہ ہاں یہ بیمار ہیں اگر وہ افورڈ کرتے ہیں تو انہیں علاج کے لیے باہر جانا چاہیے اس لیے یہ شرط عائد کرنا بنیادی انسانی حقوق کے زمرے میں آتا ہے'۔
بیرسٹر سیف کا کہنا تھا کہ 'دوسرا یہ ممکن ہے کہ حکومت کے کورٹ میں گیند دوبارہ آجائے اور عدالت کہے کہ ہم اس پر کوئی بات نہیں کرتے کیونکہ ای سی ایل کو ریگولیٹ کرنا آپ کی صوابدید ہے اور آپ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے تو پھر یہ کیا کریں گے'۔
انہوں نے کہا کہ 'میں حکومت کو اتحادی کی حیثیت سے ہمدردی میں کہہ رہا ہوں کہ وزیراعظم صاحب کو شاید یہ مشورہ دیا گیا ہے اور اس میں قانونی تقاضوں کو زیادہ ترجیح دی گئی ہے جبکہ سیاسی مضمرات کو شاید نظر انداز کیا گیا ہے'۔
حکومت کے فیصلے پر تجزیہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'یعنی یہ سوچا گیا چونکہ پی ٹی آئی کا ایک بیانیہ رہا ہے کہ ہم نے کسی صورت این آر او نہیں دینا اور کوئی نرمی نہیں کرنی ہے اور اس سے عوام کے سامنے ایک جواز پیدا کرنے کے لیے کہا گیا کہ ٹھیک ہے اگر یہ جاتے ہیں تو ہم بحالت مجبوری چھوڑ رہے ہیں لیکن 7 ارب روپے دیں'۔
نواز شریف کو باہر جانے کے لیے عائد کی گئی شرط پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'یہ رقم متنازع ہے جس کو عدالت نے سزا دی ہے یا عدالت نے معطل کردیا ہے اور اپیل زیرسماعت ہے لیکن اگراتنی بڑی رقم کی کوئی قانونی حیثیت ہوتی تو عدالت ضمانت دیتے وقت خود اس کا کہہ دیتی'۔
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ 'میں سمجھتا ہوں کہ یہ اقدام سیاسی مجبوری کے تحت کیا گیا ہے، میں نے اس کو دریافت اس لیے کہا ہے کیونکہ یہ ایک نئی بات ہے اور اختراع ہے، اس کی کوئی مثال نہیں ہے اور خاص کر کریمنل لا میں اس کی کوئی مثال نہیں ہے'۔
خیال رہے کہ حکومت نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کو عدالتی حکم کے بعد علاج کے لیے ملک سے باہر جانے سے قبل 7 ارب روپے کا بونڈ جمع کرنے کی شرط عائد کی تھی جس کو نواز شریف نے مسترد کردیا ہے۔
وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کے ہمراہ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ نواز شریف کو صرف ایک بار بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ نواز شریف یا شہباز شریف کو 7 ارب روپے کے سیکیورٹی بانڈ جمع کرانا ہوں گے'۔
نواز شریف کی صحت اور بیرونِ ملک روانگی کا معاملہ
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے سابق وزیراعظم نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے خارج کرنے کے لیے 8 نومبر کو وزارت داخلہ کو درخواست دی تھی۔
نواز شریف کو لاہور ہائی کورٹ سے رہائی کے احکامات کے بعد 6 نومبر کو سروسز ہسپتال سے جاتی امرا منتقل کردیا گیا تھا جہاں ان کے لیے ہسپتال کے انتہائی نگہداشت شعبے کی سہولیات قائم کی گئی تھیں۔
قبل ازیں انہیں گزشتہ ماہ کے اواخر میں نیب لاہور کے دفتر سے تشویش ناک حالت میں سروسز ہسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں ان کے پلیٹلیٹس کی تعداد 2 ہزار تک پہنچ گئی تھیں۔
ڈاکٹر محمود ایاز کی سربراہی میں سابق وزیر اعظم کے علاج کے لیے 6 رکنی میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا تھا اور کراچی سے ڈاکٹر طاہر شمسی کو خصوصی طور پر طلب کیا گیا تھا اور انہوں نے مرض کی تشخیص کی تھی، تاہم نواز شریف کے پلیٹلیٹس کا مسئلہ حل نہ ہوسکا اور ان کی صحت مستقل خطرے سے دوچار رہی۔
اسی دوران مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے لاہور ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں نواز شریف کی ضمانت کے لیے 2 الگ الگ درخواستیں دائر کر دی تھیں۔
لاہور ہائی کورٹ میں دائر درخواست چوہدری شوگر ملز کیس میں نواز شریف کی نیب حراست سے رہائی سے متعلق تھی، جس پر 25 اکتوبر کو سماعت ہوئی تھی اور اس کیس میں عدالت نے ایک کروڑ روپے کے 2 مچلکوں کے عوض نواز شریف کی درخواست ضمانت منظور کرلی تھی۔
بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف کی طبی بنیادوں پر عبوری ضمانت منظور کرتے ہوئے سزا 8 ہفتوں کے لیے معطل کردی تھی۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں نواز شریف کے علاج کے حوالے سے واضح کیا کہ اگر ضمانت میں توسیع کی ضرورت پڑی تو صوبائی حکومت سے دوبارہ درخواست کی جاسکتی ہے اور حکومت اس پر فیصلہ کر سکتی تاہم نواز شریف عدالت سے بھی رجوع کرسکتے ہیں۔