بھارتی جاسوس کلبھوشن کیس کے قانونی پہلووں پر غور جاری ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر
پاک فوج کے ترجمان نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کیس پر عالمی عدالت کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے آرمی ایکٹ میں ترمیم کی خبروں کو قیاس آرائیاں قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس حوالے سے مختلف قانونی پہلوؤں پر غور کر رہے ہیں۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل آصف غفور نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر میں جاری بیان میں واضح کرتے ہوئے کہا کہ ‘سزا یافتہ بھارتی دہشت گرد کمانڈر کلبھوشن یادیو کے حوالے سے عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے پاک آرمی ایکٹ میں ترمیم کی قیاس آرائیاں درست نہیں ہیں’۔
میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ‘مقدمے کی نظر ثانی اور دوبارہ جائزہ لینے کے لیے دیگر قانونی پہلوؤں کا جائزہ لیا جارہا ہے’۔
انہوں نے کہا کہ ‘حتمی فیصلہ وقت کے ساتھ جاری کیا جائے گا’۔
خیال رہے کہ میڈیا کے چند حلقوں میں یہ خبریں گردش کررہی تھیں کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے کیس پر آئی سی جے کے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے آرمی ایکٹ میں ترمیم کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں:عالمی عدالت انصاف نے کلبھوشن کی بریت کی بھارتی درخواست مسترد کردی
پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کی رہنما شیری رحمٰن نے سینیٹ اجلاس میں سوال اٹھایا کہ اطلاعات آرہی ہیں کہ کلبھوشن کو اپیل کا موقع دینے کے لیے ترمیم لائی جا رہی ہے۔
انہوں نے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اس حوالے سے ایوان کو بتائے کہ اس کی حقیقت کیا ہے۔
وفاقی وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے جواب دیا کہ کلبھوشن کو اپیل کا حق دینے کی خبر درست نہیں اور اس حوالے سے کوئی قانون سازی نہیں کی جا رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کلبھوشن سے متعلق یہ افواہ پتہ نہیں کہاں سے اڑی ہے۔
یاد رہے کہ آئی سی جے نے 17 جولائی 2019 کو بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی بریت کی بھارتی درخواست مسترد کردی تھی۔
عالمی عدالت کے جج عبدالقوی احمد یوسف نے کلبھوشن یادیو کی بریت کی بھارتی درخواست مسترد کرتے ہوئے فیصلے میں کہا تھا کہ پاکستان کی جانب سے کلبھوشن کو سنائی جانے والی سزا کو ویانا کنونشن کے آرٹیکل 36 کی خلاف ورزی تصور نہیں کیا جاسکتا۔
یہ بھی پڑھیں:کلبھوشن یادیو کیس فیصلہ: ’پاکستان کیلئے کم بھارت کیلئے زیادہ بُرا ہے‘
جج عبدالقوی احمد یوسف کا کہنا تھا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کلبھوشن بھارتی شہری ہے، بھارت نے ویانا کنونشن کے تحت کلبھوشن تک قونصلر رسائی مانگی تھی جبکہ پاکستان کا موقف تھا کہ کیس میں ویانا کنونشن کا اطلاق نہیں ہوتا اس لیے کلبھوشن کو قونصلر رسائی نہیں دی جاسکتی۔
تاہم پاکستان اور بھارت ویانا کنونشن کے فریق ہیں اور ویانا کنونشن، جاسوسی کرنے والے قیدیوں کو قونصلر رسائی سے محروم نہیں کرتا جبکہ پاکستان نے کنونشن میں طے شدہ قونصلر رسائی کے معاملات کا خیال نہیں رکھا، لہٰذا پاکستان کلبھوشن کو قونصلر رسائی دے تاہم وہ پاکستان کی تحویل میں ہی رہے گا۔
عالمی عدالت نے پاکستان سے کلبھوشن کی سزائے موت کے فیصلے پر نظر ثانی کا بھی مطالبہ کیا تھا۔