• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

جسٹس عیسیٰ نے ٹیکس قوانین کی شق 116 کی خلاف ورزی نہیں کی، وکیل

شائع November 13, 2019
10 رکنی عدالتی بینچ کی سربراہی جج جسٹس عمر عطا بندیال کررہے ہیں—فائل فوٹو: اسکرین شاٹ
10 رکنی عدالتی بینچ کی سربراہی جج جسٹس عمر عطا بندیال کررہے ہیں—فائل فوٹو: اسکرین شاٹ

اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی لیگل ٹیم کے رکن بابر ستار نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ ٹیکس شہری اور ریاست کے درمیان معاملہ ہے، کوئی شخص کسی دوسرے کے ٹیکس معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتا۔

بابر ستار نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران کہا کہ انکم ٹیکس قانون کا اطلاق آ مدن پر ہوتا ہے اثاثوں پر نہیں ہوتا۔

مزیدپڑھیں: ‘چیئرمین اے آر یو کے پاس جسٹس عیسیٰ کے خلاف شواہد جمع کرنے کا اختیار نہیں‘

10 رکنی عدالتی بینچ کی سربراہی جج جسٹس عمر عطا بندیال کررہے ہیں۔

بابر ستار نے کہا کہ جس رقم پر ٹیکس لاگو نہ ہو اس پر انکم ٹیکس بھی لاگو نہیں ہوتا کیونکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ٹیکس قوانین کی شق 116 کی خلاف ورزی نہیں کی۔

انہوں نے عدالت نے موقف اختیار کیا کہ ٹیکس قوانین میں منی ٹریل کا کوئی ذکر نہیں اور منی ٹریل کا معاملہ پانامہ کیس میں پہلی مرتبہ سامنے آیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ منی ٹریل آف شور کمپنیوں میں سامنے لانا ہوتی ہے جہاں اصل مالک کا علم نہ ہو اور جسٹس فائز عیسی کی اہلیہ اور بچے لندن اثاثوں کے مالک ہی انہوں نے کبھی انکار نہیں کیا۔

جسٹس قاضی عیسیٰ فائز کے وکیل نے کہا کہ ٹیکس ادا کرنا اور گوشوارے جمع کرانا الگ الگ چیزیں ہیں، قابل ٹیکس آمدن نہ بھی ہو تو بھی گوشوارے جمع کرائے جا سکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کیس پر بینچ کی تشکیل کا معاملہ چیف جسٹس کو نہ بھیجنے کا فیصلہ

جس پر 10 رکنی بینچ میں شامل جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا کہ ریفرنس کب فائل کیا گیا اور ٹیکس کوڈ کا اطلاق اس کیس پر ہوتا ہے ؟

بابر ستار نے جواب دیا کہ ریفرنس مئی 2019 میں دائر ہوا اور اثاثے جب جسٹس فائز عیسٰی کے نہیں ہیں اس لیے ان پر اطلاق بھی نہیں ہوتا۔

جس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ آپ ٹیکس معاملات کی طرف جا رہے ہیں جبکہ یہاں معاملہ اثاثے ظاہر کرنے کا ہے۔ علاوہ ازیں جسٹس منیب اختر نے کہا کہ مختلف معاملات کو آپس میں کنفیوز نہ کریں۔

جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ کیا ٹیکس افسر نوٹس جاری کئے بغیر اپنی رائے دے سکتا ہے؟

جس پر بابر ستار نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ یا انکی اہلیہ کو اہف بی آر نے کبھی نوٹس جاری نہیں کیا اور ٹیکس کمشنر نے اپنے طور پر شق 116 کی خلاف ورزی کا فیصلہ کیا۔

یہ بھی پڑھیں: 'کابینہ کی منظوری کے بغیر جسٹس عیسیٰ کے خلاف بھیجا گیا ریفرنس کالعدم قرار دیا جائے'

ان کا مزید کہنا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی پر ’ویلتھ سٹیٹمنٹ‘ جمع نہ کروانے کا الزام نہیں ہے۔

جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ 2013 کے ویلتھ سٹیٹمنٹ فارم کے مطابق اہلیہ اور بچوں کے اثاثوں کا علم ہونا لازم ہے۔

جس پر بابر ستار نے کہا کہ ٹیکس قوانین میں کوئی شخص کسی دوسرے کا جواب دہ نہیں ہوتا۔

جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ بیوی شوہر کے زیر کفالت نہ بھی ہوتو اس کے اثاثوں کا علم ہونا ضروری ہے، قانون میں اہلیہ کا ذکر ہے زیر کفالت کا نہیں۔

اس پر بابر ستار نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ نے 2013 میں اپنے گوشوارے جمع کروائے تھے۔

بعدازاں عدالت نے کیس کی سماعت آئندہ پیر تک ملتوی کردی

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024