حکومت کا ایران سے ٹماٹر درآمد کرنے پر غور
اسلام آباد: ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے بعد حکومت نے مقامی مارکیٹوں میں سبزیوں کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافے پر قابو پانے کے لیے متبادل ذرائع تلاش کرنے کا فیصلہ کرلیا، جس میں ایران سے ٹماٹر درآمد کرنے پر بھی غور کیا جائے گا۔
حکومتی پالیسیوں کی غلط ٹائمنگ اور موسم کی خرابی کے باعث اکتوبر کے آغاز سے ملک بھر میں ٹماٹروں کی فراہمی میں رکاوٹ پیدا ہوئی جبکہ گزشتہ ماہ ہونے والی موسلا دھار بارشوں کی وجہ سے بھی خطے میں ٹماٹر کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔
پاکستان کے ادارہ شماریات کے مطابق ٹماٹر کی اوسط قیمت 180 روپے فی کلو ہے لیکن یہ ملک کے متعدد علاقوں میں 300 روپے فی کلو تک فروخت ہورہا ہے۔
چنانچہ صورتحال قابو سے باہر ہونے پر وزارت تحفظ خوراک اسلام آباد میں درآمد کنندگان کے ساتھ آج (بروز بدھ) ملاقات کرے گی تا کہ ہمسایہ ممالک سے ٹماٹروں کی درآمدات میں تیزی لائی جائے۔
مزید پڑھیں: ٹماٹر دستیاب نہیں؟ تو اس کا متبادل جان لیں
اس حوالے سے وفاقی سیکریٹری برائے تحفظ خوراک محمد ہاشم پوپلزئی نے ڈان کو بتایا کہ ’ہم ایران سے ٹماٹر درآمد کرنے کی اجازت دینے پر غور کریں گے، اس سلسلے میں کچھ درآمد کنندگان کے ساتھ ملاقات کر کے اس کا فیصلہ کیا جائے گا‘۔
ایک اندازے کے مطابق سندھ سے ٹماٹروں اور پیاز کی نئی فصل 2 سے 3 ہفتوں میں منڈیوں تک پہنچ جائے گی، اس دوران ایران سے حاصل ہونے والی درآمدات کسی حد تک اس خلا کو پر کرنے میں مدد دے گی۔
دوسری جانب وزارت تجارت سے ملک کا درآمدی بل کم کرنے کے لیے تقریباً ہر قسم کی سبزی پر کوالٹی اسٹینڈرڈ کے مطابق نان ٹیرف اقدامات متعارف کروادیے ہیں۔
خیال رہے کہ درآمد کے لیے اشیا کا نقائص سے پاک سرٹیفکیٹ درکار ہوتا ہے لیکن اس شعبے کا کوئی عملہ ایران اور افغانستان کی سرحد پر متعین نہیں۔
یہ بھی دیکھیں: گھر کی چھت پر سبزیاں اگائیں
لہٰذا تفتان سرحد پر اشیا کی جانچ کرنے والے شعبے کی عدم موجودگی کے باعث ایران سے ٹماٹروں کی درآمد کے لیے اب تک کوئی ایک تصدیق نامہ عدم اعتراض (این او سی) جاری نہیں کیا جاسکا۔
ان معیارات نے چمن اور طورخم سرحد پر افغانستان سے ٹماٹر اور پیاز کی درآمد کو بھی متاثر کیا ہے۔
اس سلسلے میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر ڈارو خان اچکزئی نے ڈان کو بتایا کہ حکام چمن اور طور خم سرحد کے ذریعے افغانستان سے ٹماٹر اور پیاز کی برآمدات کے لیے وہاں کے نقائص سے پاک تصدیق نامے کو تسلیم نہیں کر رہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان میں ٹماٹر اور پیاز کی پیداوار تسلی بخش ہے جبکہ دیگر سبزیوں کی درآمدات کو بھی اسی سرٹیفکیٹ کی رکاوٹ کا سامنا ہے۔
خیال رہے کہ سبزیوں کی فراہمی میں آنے والے تعطل کی ایک وجہ بھارت کے ساتھ واہگہ بارڈر سے درآمد نہ ہونا ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر نئی دہلی سے تجارت رکنے کے باعث بھی مقامی مارکیٹ میں سبزیوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
ضرور دیکھیں: 'کراچی میں ٹماٹر 17 روپے کلو دستیاب ہے، جاکر چیک کرلیں'
تاہم حکومت کی جانب سے 3 اہم ترین سبزیوں ٹماٹر، پیاز اور آلو کی درآمد پر ڈیوٹی اور ٹیکسز کی چھوٹ کا فیصلہ کیا جانا ہے۔
خیال رہے کہ اس وقت ٹماٹروں کی درآمدات پر صرف 5.5 فیصد انکم ٹیکس عائد ہے جبکہ اس پر کوئی کسٹم یا سیلز ٹیکس نافذ نہیں۔
تاہم پیاز کی درآمدات پر حکومت 20 فیصد سیلز ٹیکس اور 5.5 فیصد انکم ٹیکس وصول کرتی ہے جبکہ آلو کی درآمدات پر 25 فیصد اضافی کسٹم ڈیوٹی، 17 فیصد سیلز ٹیکس اور 5.5 فیصد انکم ٹیکس حاصل کرتی ہے۔
چنانچہ درآمد کی جانے والی ان اشیا کی قیمتوں میں کمی کرنے کے لیے حکومت کو بے معنی ریونیو واپس لینا ہوگا تا کہ صارفین تک اس کے فوائد پہنچ سکیں۔
یہ خبر 13 نومبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔