جے یو آئی (ف) میں احتجاج کو وسعت دینے پر اتفاق نہ ہوسکا
اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت میں دھرنا دینے والی جمعیت علمائے اسلام (ف) کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں پارٹی کے ’پلان بی‘ پر عملدرآمد کے سلسلے میں اتفاق رائے نہ ہوسکا جس میں احتجاج کو دیگر شہروں اور شاہراہوں تک وسعت دینے کا منصوبہ شامل ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی سربراہی میں ہونے والے مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں پلان بی کے ساتھ ساتھ دھرنے میں دیگر سیاسی جماعتوں کے کردار پر بات چیت کی گئی۔
اجلاس میں احتجاج کو وسعت دینے کے معاملے پر اتفاق رائے نہ ہوسکا اور جے یو آئی (ف) کے مقامی عہدیداروں نے اس حوالے سے کام کرنے کے لیے مزید وقت کا تقاضہ کیا۔
یہ بھی پڑھیں: ہم نےحکومت کا غرور خاک میں ملا دیا، مولانا فضل الرحمٰن
اجلاس میں شریک ایک رکن نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ 'جے یو آئی (ف) کے زیادہ تر صوبائی اور ضلعی عہدیدار اسلام آباد میں موجود ہیں، اس لیے انہیں دھرنے کو دیگر شہروں اور قصبوں تک وسعت دینے کے لیے وقت درکار ہے‘۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ہمارے زیادہ تر ساتھیوں کا کہنا تھا کہ دھرنے میں اپوزیشن کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے کسی بھی قسم کی حمایت کی توقع نہیں رکھنی چاہیے‘۔
علاوہ ازیں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے آزادی مارچ کے پلان بی کے حوالے صوبائی تنظیموں کو اپنی رائے دینے کی ہدایت کرتے ہوئے ان سے پوچھا کہ کس صوبے میں کون سی شاہراہ کو مکمل بند کرنا ممکن ہے۔
دوسری جانب ڈان نیوز ٹی وی کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ اجلاس بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوا تاہم مولانا فضل الرحمٰن نے صوبائی تنظیموں سے پلان بی پر رائے مانگی اور تمام صوبائی امرا کو اپنی تیاری کے حوالے سے مرکزی مجلس عاملہ کو آج بریفنگ دینے کی ہدایت کی۔
مزید پڑھیں: آزادی مارچ: 2 دن کی مہلت ہے وزیراعظم استعفیٰ دے دیں، مولانا فضل الرحمٰن
ذرائع کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے پلان بی کے ساتھ کشمیر ہائی وے پر دھرنا بھی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور پلان بی کے تحت ملک بھر کی مرکزی شاہراہوں اور تجارتی رابطوں کو منقطع کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: حکمرانوں کو جانا ہوگا، اس سے کم پر بات نہیں بنے گی، مولانا فضل الرحمٰن
اس کے ساتھ مولانا فضل الرحمن نے12 نومبر کو بعد نماز ظہر جمعیت علمائے اسلام (ف) کی مرکزی کمیٹی کا اجلاس دوبارہ طلب کرلیا، جہاں صوبائی عہدیدار اپنی تیاری اور وسائل کے حوالے سے آگاہ کریں گے۔
آزادی مارچ کی اسلام آباد آمد
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں آزادی مارچ کا آغاز 27 مارچ کو کراچی سے ہوا تھا جو سندھ کے مختلف شہروں سے ہوتا ہوا لاہور اور پھر گوجر خان پہنچا تھا اور 31 اکتوبر کی شب راولپنڈی سے ہوتا ہوا اسلام آباد میں داخل ہوا تھا۔
تاہم آزادی مارچ کے سلسلے میں ہونے والے جلسے کا باضابطہ آغاز یکم نومبر سے ہوا تھا، جس میں مولانا فضل الرحمٰن کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور دیگر رہنماؤں نے خطاب کیا تھا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت مخالف ’آزادی مارچ‘ کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کو استعفیٰ دینے کے لیے 2 دن کی مہلت دی تھی۔
مزید پڑھیں: آزادی مارچ: پارلیمنٹ سے استعفے، ملک گیر شٹرڈاؤن زیر غور ہے، رہبر کمیٹی
جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے کہا تھا کہ پاکستان پر حکومت کرنے کا حق عوام کا ہے کسی ادارے کو پاکستان پر مسلط ہونے کا کوئی حق حاصل نہیں۔
جلسے سے مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے خطاب میں کہا تھا کہ 'عمران خان کا دماغ خالی ہے، بھیجہ نہیں ہے اور یہ جادو ٹونے سے حکومت چلا رہے ہیں، جادو ٹونے اور پھونکیں مار کر تعیناتیاں ہورہی ہیں'۔
شہباز شریف نے کہا تھا کہ 'مجھے خطرہ یہ ہے کہ یہ جو جادو ٹونے سے تبدیلی لانا چاہتے تھے وہ پاکستان کی سب سے بڑی بربادی بن گئی ہے، میں نے 72 برس میں پاکستان کی اتنی بدتر صورتحال نہیں دیکھی'۔
پاکستان پپپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے آزادی مارچ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'مولانا فضل الرحمٰن اور متحد اپوزیشن کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ہر جمہوری قدم میں ہم ساتھ ہوں گے اور ہم اس کٹھ پتلی، سلیکٹڈ وزیراعظم کو گھر بھیجیں گے'۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کا استعفیٰ یا 3 ماہ میں نئے انتخابات، فضل الرحمٰن کا حکومت کو واضح پیغام
علاوہ ازیں مارچ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا تھا کہ ایک سال میں تین بجٹ پیش کرکے بھی محصولات کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام اس حکومت کو اب ایک دن کی بھی مہلت نہیں دے سکتے۔
بعدازاں 12 ربیع الاول کے موقع پر آزادی مارچ میں سیرت کانفرنس منعقد کی گئی تھی۔
آزادی مارچ کا پس منظر
واضح رہے کہ جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے 25 اگست کو اعلان کیا تھا کہ ان کی جماعت اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا ارادہ رکھتی ہے، جس کا مقصد اکتوبر میں 'جعلی حکومت' کو گھر بھیجنا ہے۔
ابتدائی طور پر اس احتجاج، جسے 'آزادی مارچ' کا نام دیا گیا تھا، اس کی تاریخ 27 اکتوبر رکھی گئی تھی لیکن بعد ازاں مولانا فضل الرحمٰن نے اعلان کیا تھا کہ لانگ مارچ کے شرکا 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں داخل ہوں گے۔
مذکورہ احتجاج کے سلسلے میں مولانا فضل الرحمٰن نے اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتوں کو شرکت کی دعوت دی تھی۔
مزید پڑھیں: یہاں سے پسپائی نہیں پیش رفت کریں گے، مولانا فضل الرحمٰن
18 اکتوبر کو مسلم لیگ (ن) نے آزادی مارچ کی حمایت کرتے ہوئے اس میں بھرپور شرکت کا اعلان کیا تھا تاہم 11 ستمبر کو پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے مولانا فضل الرحمٰن کے اسلام آباد میں دھرنے میں شرکت سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اخلاقی اور سیاسی طور پر ان کے احتجاج کی حمایت کرتے ہیں۔
حکومت نے اسی روز اپوزیشن سے مذاکرات کے لیے وزیر دفاع پرویز خٹک، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی تھی۔
پی پی پی کی جانب سے تحفظات اور ناراضی کا اظہار کیے جانے کے بعد مولانا فضل الرحمٰن، پیپلز پارٹی کو منانے کے لیے متحرک ہوگئے تھے اور حکومتی کمیٹی سے مذاکرات منسوخ کردیے تھے۔
بعدازاں وفاقی حکومت نے اسلام آباد میں اپوزیشن جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کو 'آزادی مارچ' منعقد کرنے کی مشروط اجازت دینے کا فیصلہ کیا تھا۔