فریئر ہال کا قصّہ
فریئر ہال کی ایک یادگار تصویر فریئر ہال، باغ جناح، صادقین گیلری، لیاقت لائبریری یہ چاروں نام ایک ہی جگہ کے ہیں۔ فریئر ہال عبداللہ ہارون روڈ (سابقہ وکٹوریہ روڈ) اور فاطمہ جناح روڈ (سابقہ بونس روڈ) کے درمیان واقع ہے۔ یہ علاقہ سول لائن کا علاقہ کہلاتا ہے۔ اس کے اطراف میں سندھ کلب اور جاپانی قونصل خانے کے علاوہ پرانے امریکی قونصل خانے کی عمارت بھی موجود ہے۔
فریئر ہال، کراچی -- حالیہ تصویر -- بشکریہ -- اختر بلوچ گو کہ 2002 اور 2006 میں امریکی قونصل خانے پر دہشت گردی کے حملے کے بعد قونصل خانے کی عمارت 2011 میں کلفٹن کے علاقے مائی کولاچی بائی پاس پر منتقل کردی گئی۔ امریکی قونصل خانے پر حملے کے نتیجے میں یہ سارا علاقہ نو گو ایریا بن گیا۔ فریئر ہال میں بھی عام افراد کا داخلہ تقریباََ بند ہوگیا۔ 2011 میں فریئر ہال دوبارہ باقاعدہ عوام کے لیے کھول دیا گیا۔ فریئر ہال کے علاوہ اس کے چاروں جانب باغ میں دو اہم چیزیں تھیں؛ پہلی ملکہ برطانیہ کا مجسمہ، یہ مجسمہ اب فریئر ہال میں تو نہیں لیکن ٹوٹے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ مہوٹہ پیلس کے عقبی حصّہ میں موجود ہے۔ (مہوٹہ پیلس کی کہانی پھر سہی)
مہوٹہ پیلس میں موجود ملکہ وکٹوریہ کا ٹوٹا پھوٹا مجسّمہ -- فوٹو -- اختر بلوچ دوسرا، 1890 میں سر ایڈلجی ڈنشا کی جانب سے نصب کیا جانے والا ایک خوبصورت فوارہ ہے۔ اس فوارے کے چاروں اطراف چھوٹے چھوٹے خوبصورت مجسمے ہوتے تھے۔ یہ ایک انتہائی خوبصورت شاہکار تھا۔ لیکن اب یہ ایک زنگ آلود ملبہ لگتا ہے۔ اس پر صرف ایک مجسمہ موجود ہے جسے آنے والے افراد دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔
سر ادلجی ڈنشا کے تعمیر کردہ فاؤنٹین کی ایک یادگار تصویر -- بشکریہ -- اختر بلوچ --. بلدیہ کراچی کے مطبوعہ "اراکینِ بلدیات کراچی" نامی رسالے میں لکھا ہے کہ ایڈلجی ڈنشا نے کراچی میں کئی اسپتال، یتیم خانے، اسکول اور پارک بنوائے۔ جب آپ فریئر ہال کے مرکزی گیٹ سے اندر داخل ہوں گے تو آپ کو ایک بھورے رنگ کا تقریباََ 7 فٹ پر مشتمل ایک مینار نظر آئے گا۔ یہ مینار اُن جان بازوں کی یادگار ہے جنہوں نے پہلی جنگ عظیم میں انگریز سرکار کی سلامتی کے لیے اپنی جانیں نذر کیں تھیں۔ ان تمام افراد کا تعلق بلوچ انفینٹری سے تھا۔اس مینار پر انگریزی اور اردو میں یہ تحریر درج ہے۔ To the glory of God And in memory of our comrades of the Baluch infantary group who laid down their lives In the great war 1914-1918 یاد گار: ان برٹش آفیسرون، نان کمیشنڈ آفیسروں، سپاہیوں، اور فالووروں کی یاد میں جنہوں نے اپنے بادشاہ سلامت اور اپنی ملک کی عزت کیلئے جانین قربان کیں۔ خداوند کریم ان کی مغفرت کرے -- آمین ثم آمین
یادگاری تختی -- فوٹو -- اختر بلوچ --. ممتاز محقق عقیل عباس جعفری کراچی میونسپل کارپوریشن کی جانب سے شائع کردہ اخبار 'بلدیہ' کے فروری 1988 کے شمارے میں مطبوعہ اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں؛ "سندھ کا دوسرا کمشنر بارٹل فریئر کو بنایا گیا تھا۔ جنوری 1851ء میں فرئیر کراچی پہنچا۔ کراچی اس وقت با لکل غیر متمدن تھا۔ یہاں نہ سڑکیں تھیں، نہ کوئی بندرگاہ، نہ کوئی ڈاک بنگلہ تھا، نہ کوئی گرجا گھر۔ حتیٰ کہ جہازوں کو بھی مرمت کے لیے بمبئ بھیجا جاتا تھا"۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ بارٹل فرئیر کا عہد کراچی کی تاریخ کا ایک زریں باب ہے۔ اس کے عہد میں 1853 میں کراچی میونسپلٹی کی بنیاد پڑی۔ اسی کے عہد میں ریلوے لائن کی تعمیر شروع ہوئی۔ ایشیا کا پہلا ڈاک ٹکٹ بھی فریئر کے عہد حکومت میں یکم جولائی 1852 کو کراچی سے جاری ہوا۔ جسے سندھ ڈاک کا نام دیا گیا۔ بھیرو مل مہر چند اڈوانی اپنی کتاب سندھ کے ہندوؤں کی تاریخ کے جلد نمبر 2 کے صفحہ نمبر 120 پر لکھتے ہیں کہ؛ "نہ صرف کراچی بلکہ پورے سندھ میں سب سے زیادہ ترقی سندھ کے کمشنر سر بارٹل فریئر کے دور (1850-1859) میں ہوئی۔ سرکاری خط و کتابت فارسی میں ہوتی تھی۔ انھوں نے یہ سلسلہ بند کروا کر حکم جاری کیا کہ آئند ہ تمام خط و کتابت سندھی میں ہوگی۔ جو یورپی اور دوسرے اہل کار سندھی نہیں جانتے وہ سندھی سیکھیں اور سندھی کا امتحان پاس کریں۔ اس وقت تک سندھی لکھنے کے لیے کوئی رسم ا لخط نہیں تھا۔ اس لیے انھوں نے موجودہ عربی، سندھی رسم الخط ترتیب دیا جس کا آغاز جولائی 1853 میں ہوا۔ بعد میں انھوں نے سندھی درسی کتابیں بھی تیار کروائیں۔ انھوں نے کچھ سندھی اور 3 ہائی اسکول بھی قائم کیے۔ فریئر کے عہد میں کراچی کی پبلک لائبریری کا افتتاح ہوا۔ اسی کے عہد میں سندھ کا پہلا انگلش میڈیم اسکول کراچی میں قائم ہوا۔ 1859 میں بارٹل فریئر سندھ کے کمشنر کے عہدے سے سبکدوش ہو گیا مگر کراچی کے باشندوں نے فریئر کی خدمات کو نہیں بھلایا اور اس کی یاد ہمیشہ تازہ رکھنے کے لیے اگست 1863 میں اس کے شایاں شان ایک خوبصورت عمارت تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا. یہ خوبصورت اور دلکش عمارت فریئر ہال تھی جو آج بھی کراچی کے شہریوں کو بارٹل فریئر کی یاد دلاتی ہے۔ یہاں تک تو ٹھیک اور ہم جعفری صاحب سے متفق بھی ہیں۔ گو کہ اس مضمون میں آگے جا کر وہ لکھتے ہیں کہ قیام پاکستان کے بعد یہ عمارت بلدیہ کراچی کو دے دی گئی۔ بلدیہ نے اس عمارت کا نام بدل کر شہید ملت لیاقت علی خان کے نام سے موسوم کر دیااور یوں 1951 سے یہ عمارت لیاقت ہال کہلانے لگی۔ لیکن کیا کہنے کراچی والوں کے۔ وہ اب بھی اسے فرئیر ہال ہی کہتے ہیں۔ الیگزینڈر بیلی اپنی کتاب "کراچی ماضی، حال اور مستقبل" مطبوعہ ہیرالڈ پبلیکیشنز کے صفحہ نمبر 39 پر لکھتے ہیں؛ "عمارت کی تعمیر کے لیے پتھر بھولاری اسٹیشن سے حاصل کیے گئے تھے جو شمال مغربی ریلوے کے مطابق 98 میل کے فاصلے پر تھا۔ اسی طرح بھورے رنگ کے پتھر جُنگ شاہی سے لائے گئے تھے جو کراچی سے تقریباََ 53 میل کے فاصلے پر تھا۔ عمارت کی تعمیر کا آغاز 1863 میں ہوا۔ نقشہ شاہی انجینئر کرنل کلیر ولکنس (Colonel Clairwilkins) نے تیار کیا تھا اور تعمیر تقریباََ دو سال میں مکمل ہوئی۔ 10 اکتوبر 1865ء کو اس وقت کے کمشنر سندھ مسٹر سیموئیل مینسفیلڈ نے اس کا افتتاح کیا تھا۔
یادگاری تختی -- فوٹو -- اختر بلوچ تعمیر میں ایک لاکھ اسی ہزار روپے خرچ ہوئے تھے۔ اس رقم میں سے 50220 روپے عوام نے دیے۔ جبکہ 75 ہزار روپے حکومت نے مہیا کئے تھے اور بقیہ 50000 روپے کراچی میونسپلٹی نے فراہم کئے تھے۔ اس عمارت کی تعمیر کے بعد اسے ٹاؤن ہال کے طور پر استعمال کیا گیا تھا"۔ مزید لکھتے ہیں کہ، "ہال کی بالائی منزل پر ایک ناچ گھر ہے"۔ بیلی کے مطابق دودھیا رنگ کی جھاڑیاں ختم کر کے وہاں پتھر اور لوہے کی زنجیریں لگا دی گئیں تھیں۔ ایک نئی طرز کا اسٹینڈ سازندوں کے لیے لگایا گیا تھا۔ ہال میں نیا اور ہلکا پھلکا فرنیچر بھی فراہم کیا گیا تھا۔ دوپہر میں سازندوں کا یہ بینڈ لوگوں کے لیے تفریح کا ایک بڑا ذریعہ تھا۔ لیکن ایک بات مجھے ہمیشہ غصہ دلاتی تھی کہ جس طرح ہندوستان کے دوسرے علاقوں میں باوردی بینڈ مین نظر آتے تھے ویسا یہاں کیوں نہیں ہوتا. ان میں ایک شخص جسے"مفتی" کہا جاتا تھا وہ بینڈ ماسٹر ہوتا تھا۔ عثمان دموہی اپنی کتاب "کراچی تاریخ کے آیئنے میں" کے صفحہ نمبر667-68 پر لکھتے ہیں؛ "فروری 1867 میں جب بارٹلے فرئیر گورنر بمبئی کی حیثیت سے کراچی آیا تو اس نے اس عمارت میں ایک دربار منعقد کیا تھا۔ اس کے بعد دسمبر 1869 میں اس عمارت میں ایک صنعتی نمائش بھی منعقد کی گئی تھی جو برصغیر اور وسطی ایشیا میں منعقد ہونے والی سب سے پہلی نمائش تھی۔ اس نمائش میں برطانوی، ہندوستانی اور وسطی ایشیائی ممالک کے تاجر اور صنعت کار اپنی مصنوعات کی تشہیر کرنے اور انہیں فروخت کرنے کے لیے لائے تھے۔ یہ عمارت ڈیڑھ صدی سے کراچی کی پہچان بنی ہوئی ہے"۔ فرئیر ہال کی بالائی منزل اب معروف مصّورصادقین کی جانب سے فرئیر ہال کی چھت پر لگائے گئے ان کے فن پاروں کی وجہ سے مشہور ہے۔
فرئیر ہال کی بالائی منزل کی چھت -- فوٹو -- اختر بلوچ --. ہمارے فوٹو جرنلسٹ دوست اختر سومرو جو صادقین ایوارڈ بھی حاصل کر چکے ہیں نے ہمیں بتایا کہ 1986 میں صادقین نے فریئر ہال کی بالائی منزل کی چھت کو اپنی مصّوری سے مزین کرنے کا آغاز کیا تھا۔ اب یہ چھت مکمل طور پر صادقین کے فن پاروں سے سجی ہوئی ہے۔ جب ہم نے فریئر ہال کی بالائی منزل کا دورہ کیا تو وہاں پر ہال کی دیکھ بھال پر مامور ملازموں اور افسران کے علاوہ کسی سے ملاقات نہیں ہوئی۔ ہم نے ایک افسر سے اس خاموشی کی وجہ پوچھی تو وہ بولے لوگ کم ہی آتے ہیں، یا اگر کوئی نمائش وغیرہ ہو تو لوگ زیادہ آتے ہیں۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ ہفتہ اور اتوار کو ہال بند ہوتا ہے۔ جب کہ یہ چھٹی کے دن ہوتے ہیں۔ اگر ہال کھلا ہو تو زیادہ لوگ یہاں آسکتے ہیں۔ انھوں نے جواباََ کہا کہ پہلے ان دو دنوں ہال کھلتا تھا لیکن عام عوام زیادہ آتی تھی اور خاصہ کچرا کرکے جاتے تھے۔ اس لیے یہ سلسہ بند کر دیا گیا۔ آئیے اب لائبریری کی طرف چلتے ہیں۔ الیگزینڈر بیلی کے مطابق نچلی منزل پر کراچی لائبریری اور میوزیم قائم کیا گیا تھا۔ بعد میں میوزیم کو برنس گارڈن منتقل کر دیا گیاتھا۔
فرئیر لائبریری کا اندرونی منظر -- فوٹو -- اختر بلوچ ہم نے جب اس لائبریری کا دورہ کیا تو دیکھا کہ مرکزی دروازے سے داخل ہوتے ہی بائیں جانب پرانے اخبارات کی جلد ہوئی فائلیں بے ترتیب رکھی ہوئی تھیں۔ لائبریری کی بائیں جانب کھڑکیاں کھلی ہوئی تھیں جس سے تیز ہوا اور قدرتی روشنی اندر آرہی تھی۔ چند کرسیوں پر بیٹھے لوگ اس قدرتی ماحول کا لطف اٹھاتے ہوئے اخبارات کا مطالعہ کر رہے تھے۔ (اس قدرتی ماحول کا لطف حاصل کرنے کی وجہ اس وقت سمجھ میں آئی جب دیکھ بھال پر مامور شخص نے بتایا کہ تقریباََ ڈھائی سال سے لائبریری کی بجلی کٹی ہوئی ہے)۔
فرئیر لائبریری کا اندرونی منظر -- فوٹو -- اختر بلوچ لیں جناب ہم آگے بڑھے۔ لائبریری کا خدمتگار ایک عمر رسیدہ خاتون خاکروب سے گفتگو میں مصروف تھا۔ اس نے ہم پر نظر ڈالی اور آنکھوں ہی آنکھوں میں سوال کر کے آمد کی وجہ معلوم کی۔ ہم نے بتایا کہ فریر ہال لائبریری پر کچھ لکھنا ہے۔انھوں نے مسکرا کر کہا، دیکھو اور لکھو۔ انہوں نے بتایا کہ یہاں تین سال قبل ہونے والی بارشوں میں ہال چھت ٹپکنے لگی جس وجہ سے اکثر کتابیں ہال کے ان گوشوں میں منتقل کی گئیں جہاں پانی نہ آئے "ترقیاتی کام" تاحال جاری ہے۔ اس لیے کون سی کتاب کہاں ہے اس کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔ جاتے جاتے ایک اور بات، تقسیم ہند کے بعد جب ہندوستانی پرائم منسٹر پنڈت جواہر لال نہرو پاکستان کے دورے پر کراچی آئے تو ان کے اعزاز میں استقبالیہ اسی فریئر گارڈن میں دیا گیا تھا۔ پاکستانی مقررین جن میں اس وقت کے وزیر اعظم لیاقت علی خان بھی شامل تھے سب ہی نے انگریزی میں تقریریں کیں۔ لیکن جب نہرو کو دعوت تقریر دی گئی تو انھوں نے اپنی تقریر کا آغاز اردو میں کرتے ہوئے کہا کہ؛ "نہ جانے کیوں یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ مجھے اردو نہیں آتی"۔
اختر حسین بلوچ سینئر صحافی، مصنف اور محقق ہیں. سماجیات ان کا خاص موضوع ہے جس پر ان کی کئی کتابیں شایع ہوچکی ہیں. آجکل ہیومن رائٹس کمیشن، پاکستان کے کونسل ممبر کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں
تبصرے (36) بند ہیں