• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

مچلکے جمع کراچکے، بانڈز جمع کرانے کی ضرورت نہیں ہے، نمائندہ مسلم لیگ (ن)

شائع November 12, 2019 اپ ڈیٹ November 13, 2019
عطااللہ تارڈ کا کہنا تھا کہ کمیٹی کے ساتھ ڈیڈلاک ہے—فائل/فوٹو:اے ایف پی
عطااللہ تارڈ کا کہنا تھا کہ کمیٹی کے ساتھ ڈیڈلاک ہے—فائل/فوٹو:اے ایف پی

سابق وزیراعظم نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے خارج کرنے کے معاملے پر وفاقی کابینہ کی ذیلی کمیٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے درمیان ڈیڈ لاک ہے جبکہ وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم کا کہنا ہے کہ ذیلی کمیٹی نے فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے نمائندے عطااللہ تارڑ نے ایک ہی دن میں وفاقی کابینہ کی ذیلی کمیٹی کے تیسرے اجلاس کے بعد رات کو میڈیا سے مختصر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 'ذیلی کمیٹی سے معاملات میں ڈیڈ لاک ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘اسلام آباد ہائی کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ سے دونوں عدالتوں سے ہماری ضمانت کے احکامات ہیں اور مچلکے وہاں جمع کرچکے ہیں'۔

عطااللہ تارڑ نے ہائی کورٹ کے احکامات کے حوالے سے کہا کہ 'طبی علاج کی ساری بات ہم وہاں کرچکے ہیں اس لیے مزید کوئی مچلکے یا بانڈز جمع کرانے کی ضرورت نہیں ہے’۔

فروغ نسیم کے مطابق کابینہ کو تجویز دی جائے گی—فوٹو:ڈان نیو
فروغ نسیم کے مطابق کابینہ کو تجویز دی جائے گی—فوٹو:ڈان نیو

وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے کمیٹی کے رکن شہزاد اکبر کے ساتھ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ذیلی کمیٹی کا اجلاس ہوا ہے اور فیصلہ جلد ہوگا اور میرٹ پر ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ساڑھے 9 بجے کارروائی شروع ہوئی اور تجاویز کے حوالے سے فیصلہ محفوظ ہوا ہے اور جلد از جلد فیصلہ دیا جائے میڈیا پر فیصلہ صبح 10 بجے آنے کی بات درست نہیں آئی ہے'۔

فروغ نسیم نے کہا کہ 'ہمارا فیصلہ تجاویز ہیں جو کابینہ میں جائیں گی جس کو کابینہ منظور یا مسترد کرنا ہے'۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی جانب سے بانڈز جمع کرانے کے حوالے سے ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ 'یہ میاں صاحب کی اپنی صوابدید ہے لیکن ہمارا جو فیصلہ کسی کی رضامندی پر منحصر نہیں بلکہ یہ فیصلہ میرٹ پر ہوگا جو بھی ہوگا'۔

انہوں نے کہا کہ کمیٹی کے اجلاس میں جتنی باتیں ہوئی ہیں وہ ان کیمرا ہیں لیکن صرف میرٹ پر فیصلہ ہوگا۔

وفاقی کابینہ کی ذیلی کمیٹی کا دوسرا اجلاس نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے معاملے پر ہوا اس سے قبل ہونے والے اجلاس میں فریقین کو دستاویزات لانے کا کہا گیا تھا۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے معاملے پر وفاقی کابینہ کی ذیلی کمیٹی کا پہلا اجلاس 5 گھنٹے تک جاری رہا تھا جس میں کوئی فیصلہ نہیں ہوسکا تھا۔

اس اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف فروغ نسیم نے کہا تھا کہ سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا معاملہ پیچیدہ ہے۔

وفاقی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ کہ ذیلی کمیٹی کا اجلاس آج رات ساڑھے 9 بجے ہوگا جس میں فریقین کو مکمل دستاویزات لانے کا کہا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کچھ دستاویزات قومی احتساب بیورو (نیب) کو اور درخواست گزار شہباز شریف اور ان کے وکلا کو بھی دستاویزات لانے کو کہا گیا ہے کیونکہ وہ مکمل تیار نہیں تھے۔

فروغ نسیم نے کہا کہ معاملہ اس وقت تک آگے نہیں بڑھ سکتا جب تک دستاویزات مکمل نہیں ہوجاتیں، انہوں نے مزید کہا کہ اجلاس میں مختلف پہلوؤں پر غور کیا گیا ہے۔

وزیر قانون کا کہنا تھا کہ وفاقی کابینہ کی ذیلی کمیٹی اس درخواست کا فیصلہ میرٹ پر کرے گی۔

ذیلی کمیٹی کا اجلاس

قبل ازیں وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف فروغ نسیم کی زیر صدارت میں کابینہ کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس ہوا، جس میں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر، نواز شریف کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان شیخ، پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما عطااللہ تارڑ اور سیکریٹری صحت مومن آغا اور سیکریٹری داخلہ اعظم سلیمان نے شرکت کی۔

علاوہ ازیں سروسز انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایس آئی ایم ایس) میں نواز شریف کا علاج کرنے والے میڈیکل بورڈ کے سربراہ ڈاکٹر محمود ایاز بھی کابینہ کی ذیلی کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے۔

کابینہ کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نام نکالنے سے متعلق نواز شریف کی میڈیکل رپورٹ کا جائزہ لیا گیا۔

ذرائع کے مطابق سیکریٹری صحت نے ذیلی کمیٹی کو 3 رپورٹس جمع کروائیں جن میں سے ایک میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ نواز شریف کو علاج کے لیے بیرون ملک منتقل کیا جانا چاہیے۔

مزید پڑھیں: نوازشریف کی بیرون ملک روانگی سرکاری میڈیکل بورڈ کی سفارش سے مشروط

اجلاس میں قومی احتساب بیورو (نیب) کے پراسیکیوٹر کو نیب کا موقف بیان کرنے کے لیے طلب کیا گیا تھا۔

نیب کے پراسیکیوٹر نے کابینہ کی کمیٹی کو بتایا کہ قومی احتساب بیورو کو انسانی بنیادوں پر سابق وزیر اعظم نواز شریف کے بیرون ملک علاج پر اعتراض نہیں۔

تاہم 2 گھنٹے سے زائد دورانیہ گزر جانے کے باوجود وفاقی کابینہ کی ذیلی کمیٹی کسی حتمی فیصلے تک نہیں پہنچ سکی جس کے بعد اجلاس میں ڈھائی بجے تک وفقہ دیا گیا تھا۔

ذرائع نے بتایا کہ ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں تمام اراکین نے نیب پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ نواز شریف العزیزیہ ریفرنس کیس میں ضمانت پر ہیں اور وہ بھی 8 ہفتوں کی ضمانت پر ہیں تو ملک سے باہر جانے والے مجرم کو واپس لانے کی ذمہ داری کون اٹھائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: چوہدری شوگر ملز کیس: مریم نواز ضمانت پر رہا

تاہم اس حوالے سے نیب نے کوئی واضح موقف نہیں دیا اور کہا کہ یہ کابینہ کا معاملہ ہے لہٰذا اسے کابینہ میں پیش کیا جائے۔

ذرائع نے بتایا کہ وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس بھی جاری ہے لیکن ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں ڈھائی بجے تک وقفہ ہونے کی وجہ سے اس حوالے سے سفارشات وفاقی کابینہ میں آج بھجوانا ممکن ہی نہیں۔

کمیٹی ذرائع نے بتایا کہ وقفے کے بعد اجلاس میں کسی نتیجے پر پہنچنے کے بعد میڈیا سے بھی بات چیت کی جائے گی۔

خیال رہے کہ امکان ظاہر کیا گیا تھا کہ ذیلی کمیٹی نواز شریف سے متعلق سفارشات مرتب کرے گی جنہیں وفاقی کابینہ میں پیش کیا جائے گا۔

قبل ازیں امکان ظاہر کیا گیا تھا کہ نواز شریف کا نام آج باضابطہ طور پر ای سی ایل سے نکال دیا جائے گا جس کے بعد وہ علاج کے لیے بیرون ملک روانہ ہوسکیں گے۔

قبل ازیں ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ کابینہ کی ذیلی کمیٹی میں وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر اور سیکریٹری داخلہ بھی شامل ہیں۔

ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے معاملے پر مشاورت کے بعد وزیراعظم عمران خان کو تجاویز سے آگاہ کیا جائے گا جس کے بعد وزیراعظم حتمی فیصلہ کریں گے۔

اس اجلاس سے متعلق کابینہ کی ذیلی کمیٹی کی جانب سے جاری خط میں کہا گیا تھا کہ 'شہباز شریف کے وکیل کی جانب سے معاملے کی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے اور حکومت پنجاب کے خصوصی صحت اور میڈیکل ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ سے موصول میڈیکل رپورٹ کے تناظر میں کابینہ کی ذیلی کمیٹی نے وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف کے کمیٹی روم میں 12 نومبر کی صبح 10 بجے اجلاس طلب کیا ہے'۔

علاوہ ازیں محکمہ صحت پنجاب کے سیکریٹری اور حکومت پنجاب کی جانب سے تشکیل کردہ میڈیکل بورڈ کے چیئرمین کو بھی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کی ہدایت کی گئی تھی۔

امید ہے نواز شریف کا نام ای سی ایل سے خارج کردیا جائے گا، ترجمان مسلم لیگ (ن)

دوسری جانب حکومت کی جانب سے کوئی فیصلہ نہ کیے جانے کے باعث 10 اور 11 نومبر کو نواز شریف کی لندن کی فلائٹس منسوخ ہونے پر پاکستان مسلم لیگ (ن) کا کہنا تھا کہ 'لندن روانگی میں تاخیر سے نواز شریف کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں'۔

مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب نے ڈان کو بتایا تھا کہ کابینہ کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں پارٹی کے صدر شہباز شریف کے نمائندے عطااللہ تارڑ اور نواز شریف کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان بھی شریک ہوں گے اور سابق وزیر اعظم کی صحت اور عدالتی احکامات کے حوالے سے تفصیلات بیان کریں گے۔

مریم اورنگزیب نے کہا تھا کہ 'ہم پُرامید ہیں کہ نواز شریف کا نام 12نومبر کو ای سی ایل سے خارج کردیا جائے گا'۔

یہ بھی پڑھیں: نوازشریف کی بیرون ملک روانگی سرکاری میڈیکل بورڈ کی سفارش سے مشروط

ساتھ ہی نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے معاملے پر 2 وفاقی وزرا کی مخالفت نظر آئی جبکہ تیسرے وزیر نے کہا کہ تمام قانونی کارروائیاں مکمل ہونے تک نواز شریف کو لندن کے لیے روانہ ہونے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

وفاقی وزرا فواد چوہدری اور فیصل واڈا کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو ملک سے جانے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔

فیصل واڈا نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیے گئے ٹوئٹ میں کہا کہ 'ملک میں جو کچھ ہورہا ہے اس کی بدولت نواز شریف اور شہباز شریف ملک سے جارہے ہیں، شہباز شریف پاکستان آتے جاتے رہیں گے، وہ وہاں جارہے ہیں جہاں ان کے رشتےدار بھی اشتہاری ہیں، پہلے یہ سعودی عرب بھاگ گئے تھے'۔

ادھر فواد چوہدری نے کہا کہ وفاقی کابینہ کے تمام اراکین نواز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کے حق میں نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پہلے نواز شریف ملک میں ایک اچھا ہسپتال نہ بنانے پر قوم سے معافی مانگیں جہاں وہ اپنا علاج کرواسکتے ہیں۔

تاہم ذرائع کا کہنا تھا کہ 'وزیراعظم عمران خان، نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے میں ہچکچاتے دکھائی دے رہے ہیں'۔

علاوہ ازیں یہ افواہیں بھی زیرِ گردش ہیں کہ نواز شریف سے 'کچھ ضمانتیں' بھی طلب کی جارہی ہیں لیکن حکومت اور پاکستان مسلم لیگ (ن) دونوں ہی ان افواہوں کو مسترد کرتے ہیں۔

ای سی ایل سے نام نکالنے کیلئے وفاقی حکومت مجاز اتھارٹی ہے، نیب

واضح رہے کہ گزشتہ روز قومی احتساب بیورو (نیب) نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے پر گیند دوبارہ وفاقی حکومت کے کورٹ میں ڈال دی تھی۔

نیب کی جانب سے مذکورہ پیشرفت وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان کے اس بیان کے بعد سامنے آئی تھی کہ جس میں کہا گیا تھا کہ 'نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے فیصلے نیب اور میڈیکل بورڈ کی سفارشات کی روشنی میں کیا جائے گا'۔

مزید پڑھیں: نواز شریف علاج کیلئے بیرون ملک جانے پر رضامند

اس حوالے سے نیب کے ترجمان عاصم علی نوازش نے ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ وزارت داخلہ کو جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا کہ 'ای سی ایل سے کسی کا نام نکالنے کے لیے وفاقی حکومت مجاز اتھارٹی ہے'۔

انہوں نے بتایا تھا کہ نیب نے اپنے جواب میں کہا کہ ایم کیو ایم کے سابق کارکن صولت مرزا کے کیس سمیت ماضی میں ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں وفاقی حکومت نے مجرمان کا نام 'ای سی ایل' سے نیب سے پوچھے بغیر نکالا۔

اس سے قبل نیب کا کہنا تھا کہ انہیں وزارت داخلہ سے نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس موصول ہو گئی ہیں اور وہ قانون کے مطابق اپنی رائے دیں گے۔

ترجمان نیب نے ڈان نیوز کو بتایا تھا کہ 'رپورٹس کا جائزہ لینے کے بعد ہم قانون کے مطابق طے شدہ وقت کے اندر اپنی رائے دے دیں گے۔'

نواز شریف کے بیرون ملک سفر کے خلاف درخواست

علاوہ ازیں لاہور ہائی کورٹ میں نواز شریف کو بیرون ملک جانے سے روکنے کے لیے آئینی درخواست دائر کی گئی تھی۔

بیرسٹر جاوید اقبال جعفری کی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا کہ یہ دیگر بیمار قیدیوں کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک ہوگا کیونکہ ایسا کرنے سے ان قیدیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جائے گا۔

درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ سابق وزیراعظم وطن واپس نہیں آئیں گے۔

تاہم لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس مامون رشید شیخ نے درخواست قابل سماعت ہونے سے متعلق فیصلہ محفوظ کر لیا۔

علاج کیلئے بیرون ملک روانگی تاخیر کا شکار

خیال رہے کہ نواز شریف کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے 8 ہفتوں کی عبوری ضمانت کے بعد 6 نومبر کو سروسز ہسپتال سے جاتی امرا منتقل کردیا تھا جہاں ان کے لیے ہسپتال کے انتہائی نگہداشت شعبے کی سہولیات قائم کی گئی تھیں۔

بعدازاں شہباز شریف نے سابق وزیراعظم اور اپنے بھائی کا نام 'ای سی ایل' سے نکالنے کے لیے وزارت داخلہ کو درخواست دی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: بیرون ملک علاج کیلئے نواز شریف کی اتوار کو لندن روانگی کا امکان

وزارت داخلہ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کو خط لکھ کر معاملے پر رائے طلب کی تھی، بعد ازاں وزارت داخلہ نے نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا معاملہ وفاقی کابینہ کو بھجوا دیا تھا۔

تاہم سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نام ای سی ایل سے خارج نہ کیے جانے کی وجہ سے ٹکٹ کنفرم ہونے کے باوجود علاج کے لیے پیر کو لندن روانہ نہیں ہو سکے تھے۔

گزشتہ روز گورنر پنجاب چوہدری سرور نے کہا تھا کہ 'میں نے ذاتی طور پر تمام اداروں سے رابطہ کیا ہے اور مجھے یقین ہے کہ نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکال دیا جائے گا'۔

علاوہ ازیں صوبہ پنجاب کی وزیر صحت یاسمین راشد نے کہا تھا کہ سرکاری میڈیکل بورڈ نے مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف کو بیرون ملک بھیجنے کی سفارش کی تھی تاہم وزارت داخلہ نے میڈیکل بورڈ سے مزید تفیصلات طلب کی ہیں۔

نواز شریف کی خرابی صحت

گزشتہ ماہ نواز شریف کو نیب لاہور کے دفتر سے تشویش ناک حالت میں سروسز ہسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں ان کی پلیٹلیٹس کی تعداد 2 ہزار تک پہنچ گئی تھیں۔

ڈاکٹر محمود ایاز کی سربراہی میں سابق وزیر اعظم کے علاج کے لیے 6 رکنی میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا تھا اور کراچی سے ڈاکٹر طاہر شمسی کو خصوصی طور پر طلب کیا گیا تھا اور انہوں نے مرض کی تشخیص کی تھی تاہم نواز شریف کے پلیٹلیٹس کا مسئلہ حل نہ ہوسکا اور ان کی صحت مستقل خطرے سے دوچار رہی۔

مزید پڑھیں: نواز شریف کو کینسر نہیں، ان کا مرض قابل علاج ہے، ڈاکٹر طاہر شمسی

اسی دوران مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے لاہور ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں نواز شریف کی ضمانت کے لیے 2 الگ الگ درخواستیں دائر کر دی تھیں۔

لاہور ہائی کورٹ میں دائر درخواست چوہدری شوگر ملز کیس میں نواز شریف کی نیب حراست سے رہائی سے متعلق تھی، جس پر 25 اکتوبر کو سماعت ہوئی تھی اور اس کیس میں عدالت نے ایک کروڑ روپے کے 2 مچلکوں کے عوض نواز شریف کی درخواست ضمانت منظور کرلی تھی۔

بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف کی طبی بنیادوں پر عبوری ضمانت منظور کرتے ہوئے سزا 8 ہفتوں کے لیے معطل کردی تھی۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں نواز شریف کے علاج کے حوالے سے واضح کیا کہ اگر ضمانت میں توسیع کی ضرورت پڑی تو صوبائی حکومت سے دوبارہ درخواست کی جاسکتی ہے اور حکومت اس پر فیصلہ کر سکتی تاہم نواز شریف عدالت سے بھی رجوع کرسکتے ہیں۔


اضافی رپورٹنگ: شکیل قرار، ذوالقرنین طاہر، سید عرفان رضا

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024