• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

7 نومبر کو نافذ کیے گئے آرڈیننس اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج

شائع November 10, 2019
درخواست میں عدالت سے  صدارتی آرڈیننس کو غیر قانونی، غیر قانونی قرار دینے کی استدعا کی گئی 
— فائل فوٹو: اے ایف پی
درخواست میں عدالت سے صدارتی آرڈیننس کو غیر قانونی، غیر قانونی قرار دینے کی استدعا کی گئی — فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کی جانب سے 7 نومبر کو منظور کیے گئے صدارتی آرڈیننس اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کردیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آرڈیننسز میں پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کی پاکستان میڈیکل کمیشن میں تبدیلی، بےنامی جائیدادوں اور اثاثوں سے متعلق آگاہ کرنے والے وہسل بلورز کو تحفظ فراہم کرنے، جائیداد میں خواتین کی ملکیت کے حقوق، لیٹر آف ایڈمنسٹریشن اور سکسیشن سرٹیفکیٹ کے اجرا کے تیز طریقہ کار، معاشرے کے غریب اور کمزور طبقے کو انصاف کی فراہمی کے لیے لیگل ایڈ اینڈ جسٹس اتھارٹی کے قیام، اعلی عدلیہ میں ڈریس کوڈ سے متعلق آرڈیننس شامل ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن اسمبلی بیرسٹر محسن شاہنواز رانجھا نے اپنے وکیل بیرسٹر عمر گیلانی کے ذریعے ان آرڈیننسز کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا۔

مزید پڑھیں: 5 کروڑ سے زیادہ کرپشن کرنے والوں کو جیل میں ’سی‘ کلاس دی جائے گی، آرڈیننس نافذ

درخواست میں صدر مملکت عارف علوی، وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری اور وزارت قانون کے سیکریٹریز، قومی اسمبلی اور سینیٹ کو فریق بنایا گیا ہے۔

اس میں کہا گیا کہ درخواست گزار قومی اسمبلی کے رکن ہیں اور گزشتہ حکومت میں ان کے پاس وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور کا قلمدان بھی تھا۔

درخواست میں کہا گیا کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 89 کے تحت صدر کو آرڈیننس نافذ کرنے کا اختیار حاصل ہے جو عارضی قانون سازی کی شکل ہے اور 2 صورتحال میں ہوسکتی ہے جب سینیٹ اور قومی اسمبلی دونوں میں سے کسی کا اجلاس نہ ہو اور ایسے حالات موجود ہوں جہاں فوری اقدام اٹھانا لازمی ہو۔

اس میں مزید کہا گیا کہ صدر مملکت وفاقی حکومت کے مشورے کے مطابق اور اس پر عمل کرنے پر پابند ہیں جس کا مطلب ہے کہ آرڈیننس کے نفاذ کی ذمہ داری وفاقی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔

درخواست کے مطابق 30 اکتوبر 2019 کو صدر عارف علوی نے ایک ہی روز میں 8 آرڈیننس نافذ کیے جس میں یٹر آف ایڈمنسٹریشن اینڈ سکسیشن سرٹیفکیٹ آرڈیننس، سول پروسیجر کوڈ (ترمیمی) آرڈیننس، انفورسمنٹ آف ایڈمنسٹریشن آف ویمن پراپرٹی رائٹس آرڈیننس، بے نامی ٹرانزیکشن آرڈیننس، سپیریئر کورٹس (کورٹ ڈریس اینڈ موڈ آف ڈریس) آرڈریننس، نیشنل اکاؤنٹیبلیٹی (ترمیم) آرڈیننس، لیگل ایڈ اینڈ جسٹس اتھارٹی آرڈیننس اور وہسل بلوورز ایکٹ شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کابینہ نے ’مفاد عامہ‘ کے 8 آرڈیننس کی منظوری دے دی، وزیر قانون

درخواست میں کہا گیا کہ وفاقی حکومت کو ان کے قانون سازی کے ایجنڈا کو ختم کرنے کے لیے آرڈیننس نافذ کرنے کے لیے ایمرجنسی صدارتی اختیارات کے استعمال کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

درخواست میں عدالت سے موجودہ حکومت کی جانب سے جاری صدارتی آرڈیننس کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کی گئی کہ انہیں دھوکا دہی سے نافذ کیا گیا ہے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024