بابری مسجد فیصلہ، نظر ثانی درخواست دائر نہ کی جائے، امام جامع مسجد دہلی
بھارت کے دارالحکومت دہلی کی جامع مسجد کے امام سید احمد شاہ بخاری نے ایودھیا معاملے کو مزید آگے نہ بڑھانے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظر ثانی اپیل دائر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
بھارتی نیوز ویب سائٹ دی وائر کی رپورٹ کے مطابق صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے امید ظاہر کی کہ اب بھارت میں فرقہ ورانہ کشیدگی کے لیے جگہ نہیں ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ 'میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ ملک قانون اور آئین سے چلتا ہے، 134 سال سے جاری تنازع کا خاتمہ ہوگیا ہے، سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے فیصلہ سنادیا ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'تہذیب اور بھائی چارے کو دیکھتے ہوئے اب ہمیں مل کر یہ کوشش کر نی ہوگی کہ مستقبل میں ملک کو اس طرح کے تنازع سے نہ گزرنا پڑے'۔
امام سید احمد بخاری کا کہنا تھا کہ 'ملک کو آئین کے تحت چلانے، قانون پر عمل درآمد برقرار رکھنے، فرقہ ورانہ کشیدگی سے اجتناب کرنے اور سماج کو تقسیم ہونے سے بچانے کے لیے سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہندو مسلمان کی بات بند ہونی چاہیے اور ملک کو آگے بڑھانے کے لیے سب کو مل کر چلنا چاہیے'۔
فیصلے کے خلاف نظر ثانی اپیل کے بارے میں ایک صحافی کے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ 'میری اپنی رائے ہے کہ معاملے کو زیادہ بڑھانا مناسب نہیں، نظر ثانی اپیل کے لیے سپریم کورٹ جانا بہتر نہیں'۔
انہوں نے کہا کہ 'مسلمان برادری پہلے سے کہتی رہی ہے کہ وہ فیصلے کا احترام کرے گی اور اب فیصلہ آنے کے بعد لوگ اس سے متفق ہیں'۔
دوسری جانب آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ فیصلہ ہماری امیدوں کے برعکس آیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہم نے اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لیے ٹھوس شواہد پیش کیے تھے اور شہید کی گئی بابری مسجد کی دوبارہ تعمیر کرنے کی اپنی ذمہ داری کو پوری طرح سے نبھایا تھا'۔
تاہم بعد ازاں دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے ورکنگ کمیٹی کے اجلاس کے بعد متنازع جگہ پر دعوے سے پیچھے ہٹنے کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ 'مسجد کے لیے مختص جگہ کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا ہے، شریعہ قانون اس کی اجازت نہیں دیتا'۔
بابری مسجد کیس پس منظر
یاد رہے کہ 6 دسمبر 1992 میں مشتعل ہندو گروہ نے ایودھیا کی بابری مسجد کو شہید کردیا تھا جس کے بعد بدترین فسادات نے جنم لیا اور 2 ہزار افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، ان فسادات کو تقسیم ہند کے بعد ہونے والے سب سے بڑے فسادت کہا گیا تھا۔
جب بابری مسجد کو شہید کیا گیا تھا اس کے بعد سے اس مقام کا کنٹرول وفاقی حکومت اور بعدازاں سپریم کورٹ نے سنبھال لیا تھا۔
بھارت کی ماتحت عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ 2.77 ایکڑ کی متنازع اراضی مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان تقسیم ہو گی۔
ایودھیا کے اس مقام پر کیا تعمیر ہونا چاہیے، اس حوالے مسلمان اور ہندو دونوں قوموں کے افراد نے 2010 میں بھارتی ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ اپنی اپنی درخواستیں سپریم کورٹ میں جمع کروا رکھی تھیں جس نے اس معاملے پر اُسی سال 8 مارچ کو ثالثی کمیشن تشکیل دیا تھا۔
اس تنازع کے باعث بھارت کی مسلمان اقلیت اور ہندو اکثریت کے مابین کشیدگی میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا تھا۔