تماشا تب لگتا ہے جب اسے ’تماشہ‘ لکھا جاتا ہے
آج کل ہر طرف ایک تماشا لگا ہوا ہے۔ آج کل کیا، تماشا کب نہیں ہوتا! ایک شاعر نے اپنی غزل میں سوال بھی کیا ہے کہ ’یہ تماشا ختم کب ہوگا؟‘
تماشا کو اخبارات ’تماشہ‘ بھی لکھ دیتے ہیں۔ شاید اس طرح تماشے کی شدت یا اہمیت کم کرنا مقصود ہو۔ لیکن یہ تماشا عربی سے آیا ہے اور عربی میں یہ ’تماشی‘ ہے۔ اس کا مطلب ہے باہم مل کر پیدل چلنا۔
فارسی والوں نے اسے تمنا، تقاضا کے مثل تماشا کرلیا۔ چونکہ سیر و تفریح کے مقام پر اکثر پا پیادہ ہی چلتے ہیں یا چلتے تھے بشرطیکہ جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر نہ ہوں۔ بہرحال اس طرح عرفِ عام میں ’تماشا‘ تفریح اور شوق کے ساتھ دیکھنے کے معنی میں مستعمل ہوگیا۔
اہلِ فارس کے کلام میں تماشا 2 معنوں میں مستعمل ہے۔ ایک ہنگامہ، دوسرے وہ چیز جس کو تعجب یا شوق سے دیکھیں۔ یہ مذکر ہے۔ دیدِ نظارہ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے جیسے یہ محاورہ ’بوڑھے منہ مہاسے، لوگ آئے تماشے‘۔ ’لوگ آئے‘ کی جگہ ’لوگ چلے‘ بھی سنا ہے۔ اس محاورے سے ظاہر ہے کہ بڑھاپے میں مہاسے نکلنا کوئی اچھی بات نہیں، گویا یہ جوانی کی علامت ہے۔ لیکن بڑھاپے کی عمر کا تعین کون کرے گا؟ مختلف ممالک میں بڑھاپے کی عمر مختلف ہوتی ہے۔ اس حوالے سے ایک اور کہاوت مردوں کے بارے میں ہے ’ساٹھا، پاٹھا‘۔ یعنی مرد ساٹھ برس کی عمر میں بھی پاٹھا ہوتا ہے۔
’پاٹھا‘ ہندی کا لفظ ہے اور مطلب ہے ’ہاتھی کا بچہ‘۔ مجازاً پہلوان یا پست قد اور فربہ شخص کو کہتے ہیں۔ ہم سمجھتے رہے کہ ’پاٹھا‘ پٹھا سے ہے جیسے پٹھا فلاں۔ یہ پہلوانوں کی اصطلاح ہے۔ ویسے تو ایک پٹھا اُلّو کا بھی ہوتا ہے اور پٹھا عصب کو بھی کہتے ہیں جس کی جمع اعصاب ہے۔ یہ بھی پٹھے کہلاتے ہیں۔ سر کے دونوں طرف کے بال بھی پٹھے کہلاتے ہیں۔ پٹھا نوعمر، نوخیز، نوجوان کو بھی کہتے ہیں۔ داغؔ کا شعر ہے
دیو غم سے لڑا ہے دل کشتی
یہ بھی پٹھا بلا کا نکلا ہے
اُلّو کے پٹھے کے لیے مزے کا شعر ہے
پیامی تُو ہے کیا اُلّو کا پٹھا
سمجھتا ہی نہیں کچھ بات میری
پٹھا (’پ‘ پر زبر) اس موٹے کاغذ کو بھی کہتے ہیں جو کتاب کی حفاظت کے واسطے چڑھا دیتے ہیں۔ اور اگر پہلے حرف یعنی ’پ‘ پر پیش ہو تو اس کا مطلب پٹھ یا پیٹھ ہے۔ قسائی کی دکان پر لوگ پٹھ کا گوشت طلب کرتے ہیں، جلدی گل جاتا ہے۔ اسی سے ایک محاورہ ہے ’پٹھے پر ہاتھ نہ رکھنے دینا‘۔ ویسے تو یہ اس گھوڑے کے بارے میں ہے جو بدن چھونے نہ دے۔ لیکن یہ انسانوں کے لیے بھی مستعمل ہے، یعنی ایسا شخص جو پاس نہ پھٹکنے دے۔ مثلاً یہ کہا جائے کہ ایک فریق تو مذاکرات کی بات کررہا ہے اور دوسرا پٹھے پر ہاتھ ہی نہیں دھرنے دیتا۔
’فریق‘ پر یاد آیا کہ اخبارات عموماً کئی یا ’تمام فریقین‘ لکھ رہے ہیں، جب کہ فریقین کا مطلب ہے 2 فریق۔ عربی میں فرق کی صفت مشبہ، اردو میں ’فریق‘ مدعی، مدعا علیہ یا 2 مقابلہ کرنے والے اشخاص یا گروہ میں سے ہر ایک کو کہتے ہیں، اور ’فریقین‘ کا مطلب ہے دونوں مقابل شخص یا گروہ۔ طرفین، مدعی اور مدعا علیہ۔ اگر 2 سے زیادہ فریق ہوں تو اردو میں ’فریقوں‘ لکھنا بہتر ہوگا۔ مثلاً ’تمام فریقوں‘۔
گزشتہ دنوں ایک خبر میں ’دست راز‘ شائع ہوا۔ متعلقہ شخص سے پوچھا تو اس نے وضاحت کی کہ ایک ایسا شخص جو کسی کے معاملات کو راز میں رکھے۔ ایسا لگتا ہے کہ اخبار کی یہ خبر قائدِاعظم اکیڈمی میں بھی توجہ سے پڑھی گئی۔ چنانچہ 21 اکتوبر کو اس معتبر ادارے سے جو پریس ریلیز جاری ہوئی اس میں بھی ’دست راز‘ موجود ہے۔
کراچی کے اخبارات میں کچھ عرصے سے ایک محلے کا نام ’اے بی سینا‘ چھپ رہا ہے۔ دو، ایک بار سمجھایا بھی، لیکن ہمارے رپورٹر سمجھتے ہیں کہ یہ اے بی (A-B) ہے۔ اگر ایسا ہے تو اسی کا مطلب معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی۔ یہ دراصل ایبے سینا ہے جو افریقا کا ایک شہر ہے۔ کسی کی نظم بھی ہے ’ایبے سینا کی لاش‘۔
جب برعظیم پر انگریز مسلط تھے تو وہ مختلف ممالک میں موجود اپنے فوجی دستوں کو بلواتے اور ان کے لیے بنائی گئی بیرکوں میں رکھتے۔ یہ بیرکیں انہی شہروں سے منسوب ہوتیں جہاں سے یہ دستے آتے تھے۔ ان کی بیرکیں چوںکہ ایک لائن میں ہوتی تھیں اس لیے یہ علاقے لائنز ایریا کہلائے جن میں ایبے سینا لائنز، ٹینشیا لائنز، جیکب لائنز وغیرہ ہیں۔ ان بیرکوں میں اب بھی سندھ حکومت کے دفاتر ہیں۔
راولپنڈی میں ایک مشہور محلہ ہے ’لال کڑتی‘۔ اس کی وجہ تسمیہ بھی وہی ہے جو ایبے سینا کی ہے۔ وہاں پر اسکاٹ لینڈ سے بلوائے گئے دستے متعین کیے گئے تھے۔ اسکاٹ لینڈ کے فوجی ایک لال رنگ کا گھگرا پہنتے ہیں، اس کو راولپنڈی والوں نے ’لال کرتی‘ قرار دیا، اور کرتی کو جانے کیوں کڑتی کرلیا، حالانکہ راولپنڈی میں بھی کرتا اور کرتی کہا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ کرتی خواتین کا پہناوا ہے یا تھا۔ بہرحال یہ علاقہ آج بھی لال کڑتی کہلاتا ہے۔
لیکن ’ٹنچ بھاٹہ‘ کی وجۂ تسمیہ کیا ہے یہ کوئی پنڈی وال ہی بتائے گا۔ اسلام آباد یونیورسٹی میں ہمارے ایک استاد اسے پٹخ بھاٹہ پڑھتے تھے۔ وہاں جانے والی بسوں پر ٹنچ بھاٹہ لکھا ہوا ہوتا تھا، اب کا پتا نہیں کہ بسیں رہ گئیں یا نہیں۔
اخبارات میں عام طور پر ’علیحدہ‘ لکھا جاتا ہے اور ہمارے خیال میں یہ فصیح ہوچکا ہے۔ ویسے عربی میں اس کا املا ’علاحدہ‘ ہے۔ علیحدہ میں ’ل‘ پر کھڑا زبر تھا جیسے عیسیٰ اور موسیٰ۔ یہ کھڑا زبر عربی میں مقصورہ کہلاتا ہے۔ ادنیٰ اور اعلیٰ پر سے تو یہ الف مقصورہ غائب کر ہی دیا گیا ہے۔ اسی طرح علیٰحدہ سے بھی غائب ہوگا۔ تلفظ اس کا ’علیٰ حدہ‘ ہے۔ علیٰ اوپر اور حدہ کا مطلب جدا، تنہا، الگ۔ علیٰحدہ کرنا کا مطلب ہوا: جدا کرنا، الگ کرنا، موقوف کرنا۔ اس کا مطلب چھانٹنا اور انتخاب کرنا بھی ہے۔ عربی میں کہتے ہیں ’علٰے وجہ الکمال‘۔ یعنی کامل طور پر۔ علی الاعلان، علیٰ ہذا القیاس وغیرہ۔ خانہ کعبہ کے قریب جو قبرستان ہے اسے بہت سے لوگ جنت المعلیٰ کہتے ہیں، معلیٰ بروزن مصلیٰ۔ جبکہ اس کا تلفظ ’معلا‘ ہے یعنی ’مع۔ لا‘۔
اسی طرح اعلانیہ بھی بغیر الف کے ہے یعنی ’علانیہ‘۔ تاہم عربی میں لفظ ’اعلان‘ ہے یعنی اظہار، ظاہر کرنا۔ ناسخؔ کا شعر ہے
یہ زمیں اچھی نہ تھی ناسخ ولیکن فکر نے
حسن پیدا کردیا ہے نون کے اعلان سے
یہ شاید ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ اردو کا ’لیکن‘ عربی کا ’لاکن‘ ہے۔ یہاں بھی ’ل‘ پر کھڑا زبر ہے۔ قرآن کریم میں بھی ’ولاکن‘ آیا ہے۔ لیکن اب اردو میں لیکن، اعلانیہ اور علیحدہ ہی درست سمجھا جائے گا۔
ٹی وی چینلز پر تلفظ میں زیر، زبر کی غلطیاں بڑھتی جارہی ہیں۔ کبھی ایسی غلطیاں انگریزی میں کرکے دکھائیں۔ مثال کے طور پر ہدایت میں پہلا حرف بالکسر ہے لیکن ماہرین اس پر زبر لگادیتے ہیں۔ ایک بڑے ادیب و شاعر کے بیٹے بھی زبان کی اصلاح کرتے ہیں لیکن وہ انتڑیاں کو انتڑ۔ یاں کہہ رہے تھے۔ اس میں نون ساکن ہے۔
یہ مضمون ابتدائی طور پر فرائیڈے اسپیشل میں شائع ہوا اور بہ اجازت یہاں شائع کیا گیا ہے۔
تبصرے (3) بند ہیں