• KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am
  • KHI: Fajr 5:52am Sunrise 7:13am
  • LHR: Fajr 5:32am Sunrise 6:59am
  • ISB: Fajr 5:40am Sunrise 7:09am

‘بیرون ملک جیلوں میں موجود پاکستانی وطن واپسی کیلئے آمادہ نہیں‘

شائع November 9, 2019
ایف آئی اے کے مطابق ترکی میں کم از کم 30 ہزار پاکستانی پھنسے ہوئے ہیں—فائل فوٹو: اے ایف پی
ایف آئی اے کے مطابق ترکی میں کم از کم 30 ہزار پاکستانی پھنسے ہوئے ہیں—فائل فوٹو: اے ایف پی

وزارت خارجہ کے مطابق متعدد غیرقانونی پاکستانی تارکین وطن شہریت مل جانے کی امید پر بیرون ملک کی جیلوں اور ادھر معمولی نوعیت کی ملازمت اپنانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔

امور خارجہ کی جانب سے پارلیمنٹری کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ ’ان میں زیادہ تر سیاسی پناہ کے متلاشی ہیں جنہوں نے اپنا پاسپورٹ پھاڑ دیا ہے اور جیلوں میں انتہائی مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود رضاکارانہ طور پر وطن واپسی کے لیے تعاون سے انکار کررہے ہیں‘۔

مزیدپڑھیں: سعودی عرب کا تارکین وطن کو ’گرین کارڈ‘ دینے کا فیصلہ

اس حوالے سے وزارت خارجہ کے عہدیدار سید زاہد رضا نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اوورسیز پاکستانی اور ہیومن ریسورس ڈیولپمنٹ کا آگاہ کیا۔

عہدیدار نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بوسنیا اور ہرزیگووینا کے جنگل میں تارکین وطن کیمپ میں قید کم از کم 4 ہزار پاکستانیوں کے بارے میں بتایا اور کہا کہ مذکورہ کیمپ پاکستانی مشن سے 400 کلومیٹر دور قائم ہے۔

کمیٹی کو یہ بھی بتایا گیا کہ وزارت اوورسیز کی جانب سے انسانی اسمگلنگ کے 400 مقدمات وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو ارسال کیے گئے۔

یہ بھی پڑھیں: ترکی: تارکین وطن کی گاڑی کو حادثہ، ہلاک افراد میں پاکستانی بھی شامل

زاہد رضا نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ بوسنیا قیدیوں کی مالی اعانت نہیں کرتا اور نہ ہی ان کے پاس قیدیوں کی دیکھ بھال کے لیے وسائل موجود ہیں۔

علاوہ ازیں انہوں نے بتایا کہ بوسنیا میں اب بھی پاکستانی تارکین وطن کی صحیح تعداد کی تصدیق نہیں ہوسکی۔

انہوں نے کہا کہ ان میں سے بیشتر کسی بھی موقع کے منتظر ہیں کہ وہ بوسنیا کے راستے یورپ میں داخل ہوسکیں جبکہ ان میں سے صرف چند افراد نے رضاکارانہ طور پر واپسی کے لیے آمادگی کا اظہار کیا۔

قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ایک اندازے کے مطابق 50 ہزار پاکستانی تارکین وطن ترکی سے وطن واپسی کے منتظر ہیں جبکہ ایف آئی اے کے ڈائریکٹر سید فرید علی نے بتایا کہ ممکن ہے کہ تقریبا20 ہزار افراد پہلے ہی لوٹ چکے ہوں۔

مزیدپڑھیں: پاکستان، سعودی عرب سے ’ترجیحی تجارتی معاہدے‘ کا خواہاں

تاہم ترکی سے وطن واپسی کے منتظر پاکستانی غیرقانونی تارکین وطن کے بارے میں وزارت خارجہ اور ایف آئی اے کے فراہم کردہ اعداد و شمار ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔

ایف آئی اے کے مطابق ترکی میں کم از کم 30 ہزار پاکستانی پھنسے ہوئے ہیں۔

دوران اجلاس کمیٹی کے چیئرمین ہلال الرحمن نے کہا کہ قائمہ کمیٹی کے اراکین کو پاکستانیوں کے بیرون ملک پھنسے ہونے کی شکایت موصول ہورہی ہے اور انہیں امداد کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا بہت ساری لائسنس یافتہ ٹریول ایجنسیاں انسانی اسمگلنگ میں ملوث ہیں اور وہ ایسے افراد کو بیرون ملک گروہوں کو فروخت کرتے ہیں جو تارکین وطن کو معمولی تنخواہوں پر نوکریاں دینے پر مجبور کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: انسانی اسمگلنگ: بڑھتا ہوا غیر قانونی کاروبار

ہلال الرحمٰن نے وزارت خارجہ کو ہدایت کی کہ وہ پاکستانیوں خصوصاً بوسنیا میں قید پاکستانیوں کے لیے مدد کریں، ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ وہ پاکستانی ہیں اور سرکاری محکموں کا فرض ہے کہ وہ ان کی دیکھ بھال کریں اور انہیں بحفاظت گھر لائیں۔

کمیٹی نے ایف آئی اے کو ہدایت کی کہ وہ انسانی اسمگلنگ میں ملوث ٹریول ایجنٹوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرے۔


یہ خبر 9 نومبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024