ایران نے خلیجی ساحل کے قریب نامعلوم ڈرون مار گرایا
ایران نے امریکی ڈرون گرانے کے بعد پیدا ہونے والی کشیدگی کے باوجود 4 ماہ بعد خلیج میں بندر ماہشہر بندرگارہ کے قریب ایک اور نامعلوم ڈرون مار گرایا۔
غیر ملکی خبر ایجنسی 'اے ایف پی' نے ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی 'تسنیم' کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ایرانی فوج نے خوزستان صوبے میں پرواز کرنے والے ایک نامعلوم طیارے کو علی الصبح میزائل کے ذریعے مار گرایا۔
خوزستان کے گورنر غلام رضا شریعتی کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا کہ فوج نے ڈرون کا ملبہ حاصل کرلیا ہے اور معاملے کی تفتیش بھی شروع کردی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:امریکی ڈرون گرانے کا واقعہ: ایران نے بہت بڑی غلطی کی، ڈونلڈ ٹرمپ
بعد ازاں خدشات کا اظہار کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ ڈرون ایرانی ساختہ بھی ہوسکتا ہے جو رات کے وقت ہونے والے میزائل تجربات کا حصہ بھی ہوسکتا ہے۔
اس سے قبل 23 اکتوبر کو اسی علاقے میں ایرانی ساختہ ڈرون حادثاتی طور پر تباہ ہوگیا تھا جس کے بعد اخبارات میں نامعلوم غیر ملکی طیارے کو مار گرانے سے متعلق خبریں سامنے آئی تھیں۔
ایرانی نیوز ایجنسی 'فارس' نے انکشاف کیا تھا کہ ڈرون ایرانی تھا اور ایمرجنسی لینڈنگ کی جارہی تھی کہ اسی دوران گر کر تباہ ہوگیا۔
ایران کی پاسداران انقلاب نے رواں برس جون میں جنوبی ساحلی پٹی پر امریکی جاسوس ڈرون مار گرانے کا دعویٰ کیا تھا۔
پاسداران انقلاب کے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ کوہ مبارک نامی حصے میں ایرانی فضائیہ نے امریکی ساختہ گلوبل ہاک ڈرون کو ملک کی فضائی سرحد کی خلاف ورزی پر نشانہ بنایا۔
ان کا کہنا تھا کہ آر کیو 4 گلوبل ہاک نامی امریکی ڈرون انتہائی بلندی پر 30 گھنٹے سے زائد محو پرواز رہ سکتا ہے اور اس میں نصب جدید آلات انتہائی خراب موسم میں بھی خطے میں ہونے والی کسی بھی نقل و حرکت کی بہترین عکس بندی کر سکتے ہیں۔
امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ (سینٹ کام) نے اس واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایرانی فورسز نے نگرانی پر مامور امریکی نیوی کے ڈرون آر کیو-4 گلوبل ہاک مار گرایا، تاہم ان کا کا اصرار تھا کہ ڈرون کو بین الاقوامی فضائی حدود میں بلاوجہ نشانہ بنایا گیا۔
مزید پڑھیں:‘ایران پر امریکی، سعودی فضائی حملے کی صورت میں کھلی جنگ ہوگی‘
سینٹرل کمانڈ کے ترجمان نیوی کیپٹن بل اربن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ایرانی فورسز نے آبنائے ہرمز میں بین الاقوامی فضائی حدود میں موجود ڈرون کو نشانہ بنایا۔
بعد ازاں ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے امریکا اور اس کے اتحادی خلیج ممالک پر واضح کیا تھا کہ ’اگر ایران پر فضائی حملہ ہوا تو کھلی جنگ ہوگی‘۔
امریکا اور ایران کے درمیان تعلقات میں کشیدگی ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 2015 کے جوہری معاہدے سے دست برداری اور معاشی پابندیوں کے بعد عروج کو پہنچی اور دونوں ممالک نے ایک دوسرے کو دھمکیاں بھی دیں تاہم براہ راست کوئی تصادم نہیں ہوا۔
ایران نے ردعمل میں اپنے جوہری نظام کو مزید وسعت دینے کا سلسلہ شروع کیا جس سے روکنے کے لیے معاہدے میں شامل چین، روس، برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے کوششیں کیں لیکن ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔