عراق میں یہ سب کیا ہورہا ہے؟
عراق میں حکومت مخالف مظاہروں کے نتیجے میں اب تک درجنوں افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوچکے ہیں۔ اچانک شروع ہونے والے ان مظاہروں نے عراقی حکومت کو حیران کردیا ہے کیونکہ وہ ایسے مظاہروں کی ہرگز توقع نہیں کر رہے تھے۔ ایک غور طلب بات یہ ہے کہ یہ احتجاجی مظاہرے سنّی اکثریتی علاقوں کے بجائے شیعہ اکثریتی علاقوں میں ہورہے ہیں جو عراق کی حکومت کا سپورٹ بیس ہے۔
مظاہروں کی ابتدا ہوئی تو یورپی خبر رساں اداروں نے رپورٹس دیں کہ داعش کو شکست کے 2 سال بعد بھی تیل کی دولت سے مالا مال حکومتی خزانہ عوام کی تقدیر نہ بدل سکا۔ 4 کروڑ ملکی باشندے بدترین حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ عوام کو بجلی، صاف پانی، صحت اور روزگار میسر نہیں، عراقی نوجوان کرپٹ رہنماوں سے تنگ ہیں اس لیے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔
یہ بھی کہا گیا کہ 2017ء میں داعش کے خلاف جنگ کے خاتمے کے بعد پہلی بار ایک طویل عرصے سے ملک پُرامن اور آزاد ہے، عراق کی تیل کی پیداوار ریکارڈ سطح پر ہے، اس کے باوجود انفرااسٹرکچر تباہ حال ہے۔ جنگ سے متاثرہ شہروں کی تعمیرِ نو شروع نہیں ہوسکی، مسلح گروپ اب بھی جتھوں کی صورت حکمرانی کر رہے ہیں۔ صدام حسین کے دور سے جاری کرپشن اب فرقہ وارانہ سیاسی جماعتوں کی حکمرانی میں عروج پر ہے۔
اس احتجاج کی بظاہر بتائی جانے والی وجوہات اپنی جگہ لیکن ان مظاہروں کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ کسی جانی پہچانی سیاسی قیادت کے بغیر ہو رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر احتجاج اور مظاہروں کی اپیلوں پر لوگ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ پر نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ یہ مظاہرے ایران کو سبق سکھانے کے لیے ہیں۔ پہلے پہل مظاہرین نے وزیرِاعظم عادل عبدالمہدی حکومت کے خلاف نعرے بلند کیے لیکن پھر یہ نعرے تبدیل ہوکر ایران مخالف ہوگئے۔ شیعہ جماعتوں کی حکومت کے خلاف پھوٹنے والے مظاہروں کا مرکز اس بار سنّی اکثریتی علاقہ فلوجہ نہیں بلکہ شیعہ اکثریتی علاقے ہیں جن میں ناصریہ، نجف اور کربلا سب سے اہم ہیں۔
مظاہرین نے نہ صرف ایران مخالف نعرے بلند کیے بلکہ ایرانی قونصل خانے کو بھی نذرِ آتش کردیا۔ ان مظاہرین کو روکنے کے لیے عراقی فورسز کے علاوہ ایران نواز ملیشیا بھی استعمال ہوئی۔ ناصریہ میں مظاہرین نے تمام پارٹی دفاتر اور سرکاری املاک کو نذرِ آتش کیا۔ نجف اور کربلا میں بھی حالات مختلف نہیں۔ ایران نواز ملیشیا نے نہ صرف مظاہرین پر فائرنگ اور تشدد کیا بلکہ مظاہروں کا ساتھ دینے والے میڈیا ہاؤسز پر بھی حملے کیے اور انہیں کریک ڈاؤن کا نشانہ بنایا گیا۔
ایران نے بظاہر ان مظاہروں کو زیادہ اہمیت نہیں دی اور ایرانی سپریم لیڈر کے ٹوئٹر ہینڈل پر کی گئی ٹوئیٹس میں کہا گیا کہ ایران اور عراق 2 ایسے ملک ہیں، جن کے دل اور روحیں ایک اللہ پر ایمان اور امام حسین سے محبت کے رشتے میں بندھی ہیں، یہ بندھن ہر نئے دن کے ساتھ مضبوط ہوگا اور دشمنوں کی طرف سے نااتفاقی پیدا کرنے کی کوششں ناکام ہوں گی۔
ایران کا سرکاری ردِعمل اپنی جگہ لیکن ان مظاہروں سے ایرانی حکومت کو دھچکا پہنچا ہے کہ اس بار احتجاج بغداد کے مخالف سنّی علاقوں میں نہیں بلکہ شیعہ علاقوں میں ہو رہا ہے۔ بیروت سے دمشق اور بغداد سے صنعا تک معاملات کو کنٹرول میں لینے کی کوشش اور خواہش کی قیمت اب ایران کو اپنے پڑوس میں چُکانا پڑ رہی ہے۔
ایران نواز میڈیا نے سعودی عرب کا ایک سرکاری خط بھی شائع کیا جو ان کے مطابق سعودی عرب کی مرکزی خفیہ ایجنسی جنرل انٹیلی جنس پریزیڈنسی کا میمو ہے، جس کے مطابق سعودی حکومت عوامی احتجاج شروع ہونے کے کئی ہفتے پہلے سے ان مظاہروں اور ان کے نتیجے میں حکومت کی تبدیلی کی پلاننگ کر رہی تھی۔
ایرانی میڈیا رپورٹ کے مطابق 8 اکتوبر کے اس میمو میں 25 اکتوبر کو چہلمِ امام حسین کے بعد مظاہروں کے لیے اہلکاروں کو ہدایت کی گئی۔ اس دستاویز کے مطابق عراقی پارلیمنٹ کی برطرفی ریاض کی پہلی ترجیح ہے، دوسرا مقصد ایران نواز ملیشیا حشد الشعبی کو تتر بتر کرنا ہے، اس کے بعد تیسرا مقصد ان مظاہروں کی آڑ میں عراقی فوج اور شیعہ یونٹوں کا خاتمہ ہے۔
ایرانی میڈیا کے مطابق سعودی ایجنسی نے عراق میں موجود ایجنٹوں کو ہدایت کی کہ وہ مظاہروں کی ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔ سوشل میڈیا پر عراق میں ہونے والے مظاہروں سے متعلق سب سے زیادہ ٹوئیٹس بھی عراق کے باہر سے کی گئیں۔
ٹوئٹر پر چلائی گئی ٹارگیٹڈ میڈیا مہم میں مظاہرین کو سرکاری املاک کی توڑ پھوڑ اور ان پر قبضے پر اُکسایا گیا۔بیرون ملک سے میڈیا مہم کا یقین اس لیے بھی کیا جا رہا ہے کہ مظاہروں کے دوران تو وہاں انٹرنیٹ سروسز معطل ہے، لیکن اس بندش کے باوجود بھی ان مظاہروں سے متعلق کوریج عرب دنیا میں ٹاپ ٹرین پر رہی ہے۔
بیرونی ہاتھ کا شُبہ مظاہروں سے پہلے سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر حملوں کی وجہ سے بھی پختہ ہوتا ہے۔ سعودی تیل تنصیبات پر حملے جنوبی عراق کے شیعہ اکثریتی علاقے میں ایران نواز ملیشیا حشد الشعبی پر ڈرون حملے اور اس کے نتیجے میں سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر حملے ان مظاہروں کی وجہ بتائے جاتے ہیں۔
امریکا ایران نواز عسکری گروہوں کو شام، لبنان اور عراق میں پابندیوں اور فضائی حملوں کا نشانہ بنا رہا ہے۔ عراق میں ہزاروں امریکی فوجی تعینات ہونے کے باوجود اسرائیل کا ایران نواز ملیشیا پر ڈرون حملہ عراقی حکومت کے لیے بھی خفت کا باعث بنا۔ عراق نے سرکاری طور پر اسرائیلی ڈرون حملوں پر کوئی بات نہیں کی لیکن امریکا نے عراق اور شام پر اسرائیل کے 9 ڈرون حملوں میں سے عراق پر ایک ڈرون حملے میں اسرائیل کے ملوث ہونے کی تصدیق کی۔
عراق میں ایران نواز حشد الشعبی پر اسرائیلی ڈرون حملے کے بعد عراق سے امریکی فوجی انخلا کے مطالبے نے بھی سر اٹھایا اور ایران نواز ملیشیا سید الشہدا بریگیڈ کے سیکریٹری جنرل ابو آلا الولائی نے کہا کہ امریکی فوجی ہمارے ہاتھوں یرغمال بھی بن سکتے ہیں۔ عراقی وزیراعظم عادل عبدالمہدی کے لیے اس صورتحال میں توازن برقرار رکھنا مشکل ہوچکا ہے۔ اسی لیے جب ایران نواز ملیشیا نے عراقی سرزمین سے سعودی تیل تنصیبات پر حملے کیے تو عراقی وزیراعظم نے اس کی تردید کی۔
عراق کے اندر شیعہ دھڑے اور حشد الشعبی بھی اختلافات کا شکار ہیں۔ وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے حشد الشعبی سمیت تمام ملیشیا گروہوں کو عراقی کنٹرول میں لانے کا حکم جاری کیا جس پر 31 جولائی تک عمل درآمد ہونا تھا لیکن اس حکم نامے پر عمل نہیں ہوسکا۔ حشد الشعبی نے اپنی فضائیہ بھی تشکیل دینے کا اعلان کیا تھا جس پر بااثر عراقی شیعہ عالم مقتدیٰ الصدر نے شدید ردِعمل دیا اور کہا کہ عراق دوبارہ بدمعاش ریاست بن جائے گا۔ مقتدیٰ الصدر نے تہران کا دورہ کرکے ایرانی سپریم لیڈر سے بھی ملاقات کی اور تحفظات سے آگاہ کیا۔
امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے عراقی مظاہرین کے حق میں بیان دے کر اشارہ دیا کہ امریکا بھی عراق میں حکومت کی تبدیلی چاہتا ہے۔ امریکی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ عراقی حکومت مظاہرین کے جائز مطالبات پر توجہ دے۔
رہی سہی کسر اسرائیلی وزیرِ خارجہ اسرائیل کاتز نے ٹوئیٹ کرکے پوری کردی۔ اسرائیل کاتز نے لکھا کہ وقار اور آزادی کے لیے احتجاج کرنے والے عراقی عوام سے اسرائیل کو ہمدردی ہے۔ ایران کے پاسدارانِ انقلاب اور قاسم سلیمانی کے ہاتھوں عراقی مظاہرین کے قتل کی مذمت کرتے ہیں۔ عراق ایک طویل اور شاندار تاریخ کا حامل ہے اور اسرائیل میں رہنے والی عراقی یہودی اب بھی اپنے عراق میں قیام کو پیار سے یاد کرتے ہیں۔
ایران اور وزیراعظم عادل عبدالمہدی کے خلاف عراقی عوام کے مظاہروں کو پہلے ہی بیرونی مدد اور حمایت کے اشارے مل چکے ہیں، ان حالات میں ایران نواز ملیشیا حکومت کو برطرف کرکے کنٹرول خود بھی سنبھال سکتی ہے۔ لیکن ایسا کوئی بھی قدم مشرقِ وسطیٰ اور عراق کو نئے بگاڑ کی طرف لے جائے گا۔
سعودی عرب تیل تنصیبات پر حملے کا بدلہ بھی لینا چاہتا ہے لیکن مکمل جنگ بھی نہیں چاہتا۔ایران بھی کھلی جنگ سے گریز کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ امریکا ایران پر جنگ مسلط کرنے کی پوزیشن میں نہیں کیونکہ اس صورت میں خلیج میں اس کے اتحادی ایرانی نشانے پر ہوں گے اور اتحادی یہ خطرہ مول لینے کو تیار نہیں۔
اس سب کے باوجود مشرق وسطیٰ جنگ کے دہانے پر بیٹھا ہے۔ عراق میں امریکی فوجیوں کے خلاف ایران نواز ملیشیا کی کوئی کارروائی، حزب اللہ کا اسرائیل پر حملہ، اسرائیل کا ایران کے اتحادی گروہوں پر شام، لبنان یا عراق میں حملہ نئی جنگ چھیڑ سکتا ہے۔