آزادی مارچ: کسی غیرآئینی مطالبے کو تسلیم نہیں کیا جائے گا، وزیراعظم
حکومت کی مذاکراتی کمیٹی سے ہونے والی ملاقات میں وزیر اعظم نے واضح کردیا ہے کہ آزادی مارچ کے شرکا کی جانب سے کسی غیر قانونی اور غیر آئینی مطالبے کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ وزیراعظم کے دفتر کو آج عارضی طور پر پی ایم ہاؤس منتقل کردیا گیا تھا جہاں ہونے والے اجلاس کی سربراہی وزیراعظم عمران خان نے کی۔
مذکورہ اجلاس میں وزیراعظم سے مذاکراتی ٹیم کے سربراہ پرویز خٹک سمیت دیگر اراکین اور اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز بھی شریک ہوئے۔
اجلاس میں چوہدری پرویز الہٰی نے مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ ہونے والی ملاقات اور سیاسی صورتحال کی تفصیلات سے آگاہ کیا جبکہ مذاکراتی کمیٹی نے اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے ساتھ ہونے والی بات چیت کی تفصیلات بتائیں۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت، استعفے کے سوا اپوزیشن کے تمام مطالبات پر مذاکرات کیلئے تیار
علاوہ ازیں ملاقات میں موجود ذرائع نے بتایا کہ وزیراعظم نے دھرنے کے شرکا کے پُرامن رہنے کو سراہا اور اور املاک کو نقصان نہ پہنچانے کے طرز عمل کی تعریف کی۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت نے انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کے لیے بنائی کمیٹی کو فعال کرنے پر رضا مندی کا اظہار بھی کیا۔
اس کے علاوہ ذرائع کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے اپوزیشن کے ساتھ بات چیت میں کردار ادا کرنے پر چوہدری برادران کا شکریہ بھی ادا کیا۔
خیال رہے کہ حکومتی کی اتحادی جماعت مسلم لیگ(ق) کے سربراہ چوہدری شجاعت نے لاہور سے خصوصی طور پر اسلام آباد جاکر مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کی تھی۔
مزید پڑھیں: پہلے قدم میں کامیاب ہوئے ہیں، دوبارہ ملاقات ہوگی، مذاکراتی کمیٹیاں
جس کے بعد پریس کانفرنس میں ملاقات کی تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے چوہدری پرویز الٰہی نے کہا تھا کہ معاملات چل رہے ہیں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کوئی ڈیڈلاک نہیں ہے، معاملات جلد حل ہوجانے چاہئیں۔
حکومتی کمیٹی کی رہبر کمیٹی سے ملاقات
دوسری جانب حکومتی مذاکراتی ٹیم نے آج دوبارہ آزادی مارچ کے مطالبات پر گفت و شنید کے لیے اپوزیشن کی رہبر کمیٹی سے ملاقات کی۔
حکومت کی مذاکراتی ٹیم اپوزیشن کی رہبر کمیٹی سے ملاقات کے لیے جمعیت علما اسلام (ف) کے رہنما اکرم خان درانی کے گھر پہنچی۔
حکومتی مذاکراتی کمیٹی میں سربراہ پرویز خٹک، چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، سابق وزیرخزانہ اسد عمر، وزیر تعلیم شفقت محمود، وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری اور اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہٰی شریک تھے۔
ادھر اپوزیشن کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال، امیر مقام، پیپلزپارٹی کے نئیر بخاری، فرحت اللہ بابر، اے این پی کے میاں افتخار، طاہر بزنجو سمیت دیگر جماعتوں کے شفیق پسروری، ہاشم بابر، اویس نورانی اور عباس آفریدی اجلاس میں شریک ہوئے۔
خیال رہے کہ اپوزیشن کے مطالبات پر حکومت کی مذاکراتی کمیٹی نے گزشتہ روز (4 نومبر) کو ملاقات کی تھی، جس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رہبر کمیٹی کے چیئرمین اکرم درانی نے کہا تھا کہ ‘پرویز خٹک کی قیادت میں حکومتی مذاکراتی ٹیم آئی جس کو ہم خوش آمدید کہتے ہیں اور آج تفصیلی بات ہوئی، ہم نے اپنے مطالبات ان کے سامنے رکھے جس کو انہوں نے سنا جبکہ اس کے علاوہ بھی گفتگو ہوئی’۔
یہ بھی پڑھیں: آزادی مارچ: اے پی سی مثبت رہی، تمام جماعتیں یک زبان ہیں، عبدالغفور حیدری
انہوں نے کہا تھا کہ ‘کل پھر ملاقات ہوگی، یہ ہمارے مطالبات اپنے بڑوں کے سامنے رکھیں گے اور دوبارہ آئیں گے تو پھر تفصیلی بات ہوگی’۔
خیال رہے کہ ان دونوں ملاقاتوں سے قبل مولانا فضل الرحمٰن کی زیر صدارت اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) ہوئی تھی، جس میں آزادی مارچ کے حوالے سے لائحہ عمل پر بات ہوئی تھی۔
اے پی سی کے بعد جے یو آئی (ف) کے سیکریٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری کا میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اے پی سی بہت مثبت رہی، تمام جماعتیں یک زبان ہیں اور سب کا مثبت کردار تھا۔
آزادی مارچ کی اسلام آباد آمد
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں آزادی مارچ کا آغاز 27 مارچ کو کراچی سے ہوا تھا جو سندھ کے مختلف شہروں سے ہوتا ہوا لاہور اور پھر گوجر خان پہنچا تھا اور 31 اکتوبر کی شب راولپنڈی سے ہوتا ہوا اسلام آباد میں داخل ہوا تھا۔
تاہم آزادی مارچ کے سلسلے میں ہونے والے جلسے کا باضابطہ آغاز یکم نومبر سے ہوا تھا، جس میں مولانا فضل الرحمٰن کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور دیگر رہنماؤں نے خطاب کیا تھا۔
مزید پڑھیں: ریاست کو کسی صورت کمزور نہیں پڑنے دیں گے، وزیراعظم
مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت مخالف ’آزادی مارچ‘ کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کو استعفیٰ دینے کے لیے 2 دن کی مہلت دی تھی۔
جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے کہا تھا کہ پاکستان پر حکومت کرنے کا حق عوام کا ہے کسی ادارے کو پاکستان پر مسلط ہونے کا کوئی حق حاصل نہیں۔
جلسے سے مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے خطاب میں کہا تھا کہ 'عمران خان کا دماغ خالی ہے، بھیجہ نہیں ہے اور یہ جادو ٹونے سے حکومت چلا رہے ہیں، جادو ٹونے اور پھونکیں مار کر تعیناتیاں ہورہی ہیں'۔
شہباز شریف نے کہا تھا کہ 'مجھے خطرہ یہ ہے کہ یہ جو جادو ٹونے سے تبدیلی لانا چاہتے تھے وہ پاکستان کی سب سے بڑی بربادی بن گئی ہے، میں نے 72 برس میں پاکستان کی اتنی بدتر صورتحال نہیں دیکھی'۔
یہ بھی پڑھیں: حکمرانوں کو جانا ہوگا، اس سے کم پر بات نہیں بنے گی، مولانا فضل الرحمٰن
علاوہ ازیں پاکستان پپپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے آزادی مارچ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'مولانا فضل الرحمٰن اور متحد اپوزیشن کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ہر جمہوری قدم میں ہم ساتھ ہوں گے اور ہم اس کٹھ پتلی، سلیکٹڈ وزیراعظم کو گھر بھیجیں گے'۔
آزادی مارچ کا پس منظر
واضح رہے کہ جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے 25 اگست کو اعلان کیا تھا کہ ان کی جماعت اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا ارادہ رکھتی ہے، جس کا مقصد اکتوبر میں 'جعلی حکومت' کو گھر بھیجنا ہے۔
ابتدائی طور پر اس احتجاج، جسے 'آزادی مارچ' کا نام دیا گیا تھا، اس کی تاریخ 27 اکتوبر رکھی گئی تھی لیکن بعد ازاں مولانا فضل الرحمٰن نے اعلان کیا تھا کہ لانگ مارچ کے شرکا 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں داخل ہوں گے۔
مذکورہ احتجاج کے سلسلے میں مولانا فضل الرحمٰن نے اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتوں کو شرکت کی دعوت دی تھی۔
18 اکتوبر کو مسلم لیگ (ن) نے آزادی مارچ کی حمایت کرتے ہوئے اس میں بھرپور شرکت کا اعلان کیا تھا تاہم 11 ستمبر کو پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے مولانا فضل الرحمٰن کے اسلام آباد میں دھرنے میں شرکت سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اخلاقی اور سیاسی طور پر ان کے احتجاج کی حمایت کرتے ہیں۔
حکومت نے اسی روز اپوزیشن سے مذاکرات کے لیے وزیر دفاع پرویز خٹک، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی تھی۔
پی پی پی کی جانب سے تحفظات اور ناراضی کا اظہار کیے جانے کے بعد مولانا فضل الرحمٰن، پیپلز پارٹی کو منانے کے لیے متحرک ہوگئے تھے اور حکومتی کمیٹی سے مذاکرات منسوخ کردیے تھے۔
بعدازاں وفاقی حکومت نے اسلام آباد میں اپوزیشن جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کو 'آزادی مارچ' منعقد کرنے کی مشروط اجازت دینے کا فیصلہ کیا تھا۔