حکمرانوں کو جانا ہوگا، اس سے کم پر بات نہیں بنے گی، مولانا فضل الرحمٰن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ ناجائز حکمران کے ہوتے ہوئے معاملات ٹھیک نہیں ہوں گے، ان حکمرانوں کو جانا ہوگا اور اس سے کم پر بات نہیں بنے گی۔
اسلام آباد میں آزادی مارچ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 'شرکا یہاں جو مقصد لے کر آئے ہیں ہم اس مقصد کے قریب تر ہوتے جارہے ہیں، آج حزب اختلاف کی جماعتوں کا مشترکہ اجلاس ہوا جن میں رہنماؤں نے آزادی مارچ کے شرکا کو خراج تحسین پیش کیا، آج تمام سیاسی جماعتوں نے قائدین نے ہمیں یہ بھی یقین دلایا کہ وہ اس محاذ پر جمعیت علمائے اسلام (ف) کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔'
انہوں نے کہا کہ 'آج تمام سیاسی جماعتوں کے مارچ میں شمولیت سے متعلق شکوک و شبہات دم توڑ گئے ہیں، آج یہ بات بھی دم توڑ گئی کہ کونسی سیاسی جماعت آپ کے ساتھ کس حد تک ہے اور کدس حد تک نہیں اور اب ہمیں اگلے مراحل تک جانا ہے۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'آج ایک عجیب صورتحال ہے، 2014 میں انہوں نے ایک دھرنا دیا، جس میں حکومت اور اپوزیشن ایک طرف تھیں اور عمران خان ایک طرف تھا، خدا جانے یہ کس کا نمائندہ ہے، عمران خان پہلے سلیکٹڈ تھے اب ریجیکٹڈ ہوگئے ہیں۔'
مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ 'ہم پاکستان کو طاقتور دیکھا چاہتے ہیں، عالمی برادری کی نگاہ میں محترم دیکھنا چاہتے ہیں، کمزور پالیسیوں کی نتیجے میں آج پاکستان تنہا نظر آرہا ہے، پاکستان تنہا نظر آرہا ہے کیونکہ یہ پڑوسی ملکوں کو اعتماد نہیں دے سکتا، ہم عالمی برادری میں پاکستان کو تنہائی سے نکالنا چاہتے ہیں۔'
یہ بھی پڑھیں: یہاں سے پسپائی نہیں پیش رفت کریں گے، مولانا فضل الرحمٰن
انہوں نے کہا کہ 'یہ سوچتے تھے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اس کے لیے رحمت بنیں گے، کہا کہ مودی جب کامیاب ہوگا تو مسئلہ کشمیر حل ہوگا، مودی کامیاب ہوگیا اور یہ وہ حال ہے جو کشمیر کا ہوا ہے، ہر طرف محاذ کھول لیے ہیں اور پاکستان تنہا ہو رہا ہے لیکن میں پیغام دینا چاہتا ہوں کہ کشمیریوں کو تنہا نہیں چھوڑیں گے
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے جو آواز بلند کی وہ پوری قوم کی آواز ہے، یہ آواز اس نوجوان کی آواز ہے جو اپنے مستقبل کو تاریک دیکھ رہا ہے، انہوں نے پاکستان کو قرضوں میں جکڑ دیا اور پوری طرح آئی ایم ایف کےشکنجے میں ہیں اور جتنا وقت ان کو ملے گا ایک ایک دن پاکستان کے زوال کا دن ہوگا۔
سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا کہ خارجہ پالیسی ان کی ناکام، داخلی طور پر پاکستان غیر مستحکم ہیں جبکہ پاکستان کے تمام ادارے ملکی استحکام سے متعلق اضطراب میں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے مذاکراتی کمیٹی بنا کر بھیجی کہ بات کرنا چاہتے ہیں، میں نے کہا کہ مذاکرات تو ہمیں کرنے ہیں شرط تو ہم لگائیں گے جبکہ نااہل حکومت کے ہوتے ہوئے کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔
انہوں نے کہا کہ کبھی کہا جاتا ہے کہ یہ مذہبی لوگ ہیں خواتین کو نہیں آنے دیا جاتا، مذہبی بنیاد پر قوم کو تقسیم کرنا مغرب کی سازش ہے، ہم مذہبی شناخت رکھتے ہوئے بھی فرقہ واریت کو تسلیم نہیں کرتے، ہم آئین کو میثاق ملی سمجھتے ہیں اور آئین سے باہر کوئی بات نہیں کر رہے جبکہ سابق آرمی چیف نے انٹرویو دیا کہ علما کرام جو بات کر رہے ہیں وہ آئین کے مطابق ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ پاکستان میں غیر منتخب لوگ اقتدار پر قابض ہوں گے تو اضطراب ہوگا، بحیثیت شہری ہم مضطرب ہیں ہمارا اضطراب کون دور کرے گا، ان حکمرانوں کو جانا ہوگا اور قوم کے حق کو تسلیم کرنا ہوگا اس سے کم پر بات نہیں بنے گی جبکہ ناجائز حکمران کے ہوتے ہوئے معاملات ٹھیک نہیں ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ خطرے کی بات کیوں کی جاتی ہے، ہم تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں، ہم نے 15 'ملین مارچ‘ کیے ہیں جن میں اپوزیشن پارٹیاں شریک ہوئیں لہٰذا تصادم ہوگا تو قوم کے ساتھ ہوگا۔
مزید پڑھیں: پیپلزپارٹی، مسلم لیگ(ن) کا جے یو آئی (ف) کے دھرنے میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ
'کم سے کم وزیراعظم کا استعفیٰ چاہتے ہیں'
بعد ازاں اپنی رہائش گاہ پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہم کم سے کم وزیر اعظم کا استعفی اور زیادہ سے زیادہ اسمبلیوں کی تحلیل چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اصلاحات کے بغیر تو الیکشن ہمیں بھی منظور نہیں، ایسے الیکشن کا کیا فائدہ جس میں پھر ایک فوجی پولنگ کے اندر اور دوسرا باہر کھڑا ہو جبکہ موجودہ الیکشن ایکٹ پر بھی عمل کرلیا جائے تو نتائج بہتر ہوسکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد ہی نہیں استعفیٰ بھی تو آئینی آپشن ہے، وزیر اعظم سے ذاتی اختلاف نہیں قومی مسئلہ ہے، ان کا استعفیٰ نہیں آتا تو مطلب حکومت سنجیدہ نہیں ہے جبکہ حکومت سے معاہدہ ہوا تو ضامن کی ضرورت نہیں ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ مقتدر حلقوں سے موجودہ صورتحال میں کوئی ملاقات نہیں ہوئی جبکہ کورکمانڈرز کانفرنس نے تناؤ نہ ہونے کی بات کر کے تصدیق کردی کہ تناؤ موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں کارکن ہوں، بڑی اپوزیشن جماعتوں سے اپوزیشن کا اسٹئرنگ نہیں چھینا جبکہ اے پی سی نے طے کر دیا ہے کہ مارچ میں بیٹھے کارکن اب سب کے کارکن ہیں۔
مریم نواز کے حوالے سے سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا کہ مریم نواز کی ضمانت کی خبر سنی ہے لیکن ابھی وہ رہا نہیں ہوئیں جبکہ وہ مارچ میں شرکت کریں گی یا نہیں ابھی نہیں کہہ سکتا۔
قبل ازیں مولانا فضل الرحمٰن کی زیر صدارت اپوزیشن کی 9 جماعتوں کی کانفرنس منعقد ہوئی تھی تاہم اس میں 5 سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی)، نیشنل پارٹی اور جمعیت اہل حدیث کی قیادت شریک نہیں ہوئی۔
جے یو آئی ذرائع کے مطابق اجلاس میں دھرنا جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا تاہم ملک گیر شٹر ڈاون اور سڑکیں بلاک اسلام آباد میں دھرنا جاری رکھتے ہوئے کیا جائے یا دھرنا ختم کر کے کیا جائے اس پر ابھی اتفاق نہیں ہوسکا۔
اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں جے یو آئی (ف) کے سیکریٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری نے کانفرنس کو مثبت قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ تمام جماعتیں یک زبان ہیں اور احتجاج جاری رہے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ کوشش کی جارہی ہے کہ تمام معاملات افہام و تفہیم سے حل کر لیے جائیں۔
دھرنے کے حوالے سے ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ احتجاج جاری ہے اور جاری رہے گا تاہم حکومتی مذاکراتی کمیٹی نے رابطہ کیا ہے لیکن آزادی مارچ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر ختم ہوگا، ایسے ہم یہاں سے نہیں اٹھیں گے اور اگر ہمیں 4 ماہ بھی احتجاج جاری رکھنا پڑا تو جاری رکھیں گے۔