• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

یہاں سے پسپائی نہیں پیش رفت کریں گے، مولانا فضل الرحمٰن

شائع November 3, 2019 اپ ڈیٹ November 4, 2019
— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: ڈان نیوز

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے آزادی مارچ کے حوالے سے فیصلے مشترکہ طور پر کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہاں سے پسپائی نہیں بلکہ پیش رفت کریں گے اور پورے ملک کو اجتماع گاہ بنائیں گے۔

اسلام آباد میں آزادی مارچ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 'آپ کا جذبہ بڑھتا جارہا ہے اور اس میں اضافہ ہو رہا ہے اور مقصد کے حصول کے لیے آپ آخری بازی لگانے تک تیار نظر آرہے ہیں'۔

جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے کہا کہ 'اسلام آباد کی تاریخ کا کہ سب سے بڑا اجتماع ہے، اس سے پہلے اس سرزمین اور ان فضاؤں نے اتنا بڑا اجتماع نہیں دیکھا اور آئندہ بھی اتنا بڑا انسانی اجتماع نہیں دیکھے گا'۔

انہوں نے کہا کہ 'مسئلہ ایک شخص کے استعفے کا نہیں ہے مسئلہ اس قوم کے امانت کا ہے، عوام کے ووٹ کی امانت کا ہے اور عوام یہاں آکر اپنی امانت واپس حاصل کرنے کی جنگ لڑرہے ہیں اور جب حزب اختلاف کی تمام جماعتوں کا ووٹ اکٹھا کیا جائے تو اس دھاندلی کے باوجود حکومتی بینچوں پر بیٹھے لوگوں سے پھر بھی زیادہ یہ ووٹ ہیں'۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 'ہمیں کہہ رہے ہیں کہ آپ الیکشن کمیشن میں جائیں اور وہاں اپنی شکایت درج کریں، الیکشن کمیشن بے چارہ ہم سے بھی بے بس ہے اگر وہ بے بس نہ ہوتا تو آج قوم کی اتنی بڑی تعداد یہاں اسلام آباد میں موجود نہیں ہوتی'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'قومی اسمبلی میں حزب اختلاف اور حکومتی جماعتوں نے یہ فیصلہ کیا کہ کسی ٹریبیونل میں نہیں جانا، کسی الیکشن کمیشن میں نہیں جانا، کسی عدالت میں نہیں جانا بلکہ دھاندلی کی تحقیق پارلیمانی کمیٹی کرے گی اور ایک سال میں اس کمیٹی کی کوئی میٹنگ ہوئی اور نہ ہی اس کے کوئی قواعد و ضوابط طے ہوسکے'۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 'حکومتی بینچوں میں بھی اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ اتنی بری دھاندلی ہوئی ہے کہ کسی ادارے کے سامنےشکایات پیش کرنے کی گنجائش ہی نہیں ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'تحریک انصاف کا فارن فنڈنگ کیس اسی الیکشن کمیشن میں زیرسماعت ہے، پانچ سال ہوگئے وہ ناجائز حکمران پارٹی کا فارن فنڈنگ کیس کافیصلہ نہیں کرسکتا تو وہ دھاندلی کا فیصلہ کیسے کرے گا'۔

'خود تحریک انصاف کے اکبر ایس بابر رل رہے ہیں، جبکہ تم لوگوں سے حساب مانگتے ہو اور خود اپنے حساب کے حوالے سے کسی ادارے کے سامنے پیش ہونے کو تیار نہیں، دوسری پارٹی کے افراد پر اعتراض ہے کہ انہوں نے کرپشن کی ہے، یہاں تو پوری پارٹی کرپٹ ہے، ایسی قابل احتساب پارٹی آج پاکستان پر حکومت کر رہی ہے، کیا ہم اس کی حکومت کو تسلیم کرسکتے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'بات بڑی واضح ہے کہ ان حکمرانوں کو جانا ہوگا، عوام کو ووٹ کا حق دینا ہوگا اور اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں ہے'۔

مزید پڑھیں: آزادی مارچ: پارلیمنٹ سے استعفے، ملک گیر شٹرڈاؤن زیر غور ہے، رہبر کمیٹی

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 'ایک بات میں واضح کردینا چاہتا ہوں کہ اس اجتماع کے بعد یہ مطلب نہیں کہ ہمارا سفر رک گیا، آج کئی صحافی حضرات سے بات ہوئی، انہوں نے پوچھا کہ آپ یہاں سے واپس جائیں گے وہ اس کو پسپائی سے تعبیر کیا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم یہاں سے جائیں گے تو پیش رفت کی صورت میں جائیں گے اور آگے بڑھ کر اس سے سخت حملہ کرنے کی طرف جائیں گے اور حکمرانوں کو بتائیں گے کہ آج ایک اسلام آباد بند ہے ان شااللہ پورا پاکستان بند کرکے دکھا دیں گے، آج ایک اسلام آباد میں اجتماع ہے، پورے پاکستان کو اجتماع گاہ بنا کردکھائیں گے'۔

انہوں نے کہا کہ یہ سفر اب رکے گا نہیں اور یہ سیلاب رکے گا نہیں بلکہ اپنے مقصد کے حصول تک جاری رہے گا۔

'آئین میں اداروں اور محکمہ جات کا کردار متعین ہے'

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 'آئین کے اندر تمام محکمہ جات اور تمام اداروں کا کردار کا اپنا دائرہ ہے، اپنے دائرے سے وابستہ رہیں گے کوئی فساد ملک میں نہیں آرہا، یہ بات صرف میں نہیں کررہا ہے بلکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا تھا کہ از سر نو ایک عمرانی معاہدہ ہونا چاہیے، ہم آئین سے بہت دور چلے گئے ہیں'۔

— فوٹو: اے پی
— فوٹو: اے پی

چیف جسٹس کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'ہر ادارہ مداخلت کررہا ہے، عوام مطمئن نہیں ہیں کہ پاکستان میں آئین کی حیثیت کیا ہے لہٰذا تمام اداروں کو بیٹھ کر یہ طے کرنا ہوگا کہ آئین محترم اور سپریم ہے اس کی بنیاد پر اس ملک کا نظام چلے گا اور یہ عہد و پیمان کرنا پڑے گا تاکہ پاکستان کی عملداری اور اس کے تحت ہم اپنے وطن عزیز کے نظام کو چلا سکیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'جمہوری ادارے بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں، جمہوریت نام کی چیز رہ گئی ہے، ہر شخص الیکشن میں عوام کی طرف دیکھنے کے بجائے کسی اور طرف دیکھ رہا ہوتا ہے، عوام کے ووٹ کو عزت دینا ہوگی، عوام کے ووٹ کو امانت سمجھنا پڑے گا'۔

انہوں نے کہا کہ 'عوام کے ووٹ پر ڈاکا ڈالنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، عوام جو فیصلہ کرے جس کے بارے میں کریں ہمیں عوام کے فیصلے پر اعتراض نہیں ہوگا'۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 'بڑے شوق سے کہتے ہیں کہ مدارس کے نصاب کی اصلاح ہونی چاہیے، اس کے نصاب کو تبدیل کرنا چاہیے لیکن مدارس تو غریبوں کے لیے ہے، مدارس میں غریبوں کی مفت تعلیم ہوتی ہے جہاں مفت کتابیں فراہم کی جاتی ہیں اور غریبوں کو مفت رہائش دی جاتی ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ارب پتی لوگوں کے اداروں میں پاکستان کے ایک خاص طبقے کو تعلیم ملتی ہے اور عام لوگوں ایک کلرک سے آگے نہیں جانے دیتے، ان ارب پتیوں کے تعلیمی اداروں کی اصلاح کیوں نہیں کی جاتی، اس میں تبدیلیوں کی بات کیوں نہیں کی جاتی'۔

سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا کہ 'تبدیلیوں کی بات کرو گے تو جو بڑے بڑے مہنگے تعلیمی ادارے چل رہے ہیں پہلے ان کی تبدیلی کی بات کرو پھر دینی مدارس میں تبدیلی کی بات کرو'۔

حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'فکر کرو اس قوم کی، آج پاکستان کا غریب صبح شام کی روٹی کے لیے ترس رہا ہے اور مہنگائی سے تڑپ رہا ہے اس کے پاس چھت نہیں، اس کے گھر گرا دیے گئے ہیں اس لیے اس غریب کی بہتری کے لیے کچھ کرو اور اگر نہیں کرسکتے تو آپ کو پاکستانی قوم پر مسلط ہونے کا کوئی حق نہیں'۔

انہوں نے کہا کہ 'معاملات سنجیدہ ہیں اتنے آسان نہیں کہ اتنا بڑا اجتماع یہاں آگیا ہے اب اس کو جانا چاہیے، صرف مولوی صاحبان نہیں آئے بلکہ اس اجتماع میں پوری قوم بیٹھی ہوئی ہے، اس میں تمام سیاسی جماعتیں اور اس کے کارکن موجود ہیں، اس اجتماع میں تاجر، ڈاکٹر، انجینئر، مزدور، کسان اور ملک کے ہر طبقے کا فرد موجود ہے اور یہاں سے امید وابستہ کیے ہوئے ہیں'۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 'میں واضح طور پر کہتا ہوں کہ ہم ان کی امیدوں پر پورا اترنا چاہتے ہیں اور کسی صورت ان کو مایوس نہیں ہونے دیں گے'۔

انہوں نے کہا کہ 'میرے محترم دوستو! افواہوں پر مت جائیں، میڈیا کے لب ولہجے پر مت جائیں، اپنے اوپر اعتماد کرو اور اپنی قیادت پر اعمتاد کرو، یہ لوگ ہم سے زیادہ آپ کے خیر خوا نہیں ہوسکتے، آپ کی قیادت جو فیصلے کرے گی وہی آپ کو مستقبل میں آگے لے کر جائیں گے'۔

اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ 'جمعیت علمائے اسلام گزشتہ 18 برسوں میں تمام دینی ماحول کی واحد جماعت ہے جس نے مذہبی نوجوان کو اعتدال کی راہ دی ہے، جس نے مذہبی نوجوان کو سیاسی راستہ بتایا ہے اور مذہبی نوجوان کی تربیت کی ہے اور آج اس کو اشتعال دلایا جارہا ہے، وہ لوگ میرے خیر خواہ نہیں ہیں جو مجھے طعنے دیتے تھے اور اشتعال دلا کر راستہ بتاتے تھے'۔

انہوں نے کہا کہ 'اگر میں پاکستان کی پوری تاریخ میں اور 2001 کے نائن الیون کے بعد اپنے نوجوان پر قابو پایا ہے اور ریاست کے جذباتی ماحول کو شکست دی ہے، امریکا اور مغربی کی سازش کو ناکام بنایا ہے اور جمعیت علمائے اسلام نے تمام دینی قوتوں کو ایک اعتدال کے پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا ہے، پاکستان کے ساتھ وابستہ کیا ہے، آئین کے ساتھ وابستہ کیا، بغاوت اور اسلحے سے دور رکھا ہے، سیاسی راہ دکھائی ہے'۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 'مستقبل میں بھی یہ صلاحیت ہم رکھتے ہیں تم ہمیں راستے نہ بتایا کرو'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'امریکا اور مغربی دنیا کی حکمت عملی اور پالیسی یہ تھی کہ اسلامی دنیا کے نوجوان کو اشتعال دلاؤ تاکہ وہ ریاست کے ساتھ تصادم میں آئے اور ریاستی قوت سے ہم ان کا خاتمہ کریں، جو حالات افغانستان، عراق، لیبیا، شام، یمن میں پیدا کیے گئے اور جو حالات سعودی عرب میں پیدا کرنے جارہے ہیں وہ پاکستان میں بھی یہی حالات پیدا کرکے کر مذہبی نوجوان کو نیست و نابود کرنا چاہتے تھے لیکن ہماری حکمت عملی کامیاب ہوئی ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'آج دینی قوت اتنی بڑی قوت کے ساتھ اسلام آباد کی سرزمین اور یہاں کے آسمان کو گواہ بنارہی ہے کہ یہ آئین کے ساتھ کھڑے ہیں، پاکستان، جمہوریت اور قانون کے ساتھ کھڑے ہیں اور ہم اس مقصد پر مضبوطی سے قائم ہیں اس لیے سازشیں مت سوچیں'۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 'یہ مت سوچیں کہ آپ کی سازش اور تعاون اور جذبات میں آکر ہم کوئی غلط راستہ اختیار کریں گے، چار دن سے دیکھ رہا پوری دنیا کا میڈیا الجزیرہ، بی بی سی اور وائس آف امریکا ہوں یا پاکستان کے چینلز ہوں اعتراف کر رہے کہ پہلی مرتبہ اتنا بڑا مجمع اور اتنا منظم زندگی میں نہیں دیکھا ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'آج کا یہ اجتماع 2014 کے ڈی چوک کے اجتماع کے ہر قسم کے خرافات سے پاک ہے، اس وقت خواتین اینکرز کی تذلیل کی گئی لیکن یہاں ان کی عزت کی جاتی ہے، غلط باتیں کیوں کی جاتی ہے تم کون ہوتے ہو ہمارے بارے میں تاثر کی بات کرنے والے کیونکہ ہمارا ماحول زیادہ معقول اور سنجیدہ ہے'۔

'پارٹی سربراہان سے رابطے میں ہیں'

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 'ہم تمام پارٹی سربراہان سے رابطے میں ہیں اور کوشش کر رہا ہوں کہ کل ان کا اجتماع ہوسکے تاکہ ہم پیش رفت پر فیصلہ کریں گے، ہم نے کبھی 126 یا دو مہینے یا ایک مہینے کی بات نہیں کی ہے تو ہمارے ماحول کو اشتعال دلارہے ہیں، ہم اپنے مستقبل کو بہتر جانتے ہیں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم نے آج تک لمبا سفر کیا جب سے پاکستان بنا ہے ہم نے اس کے ساتھ سفر کیا ہے اور پاکستان سے پہلے بھی ہماری ایک تاریخ برصغیر کی دو سوسالہ تاریخ ہمارے اکابرین کی قربانیوں کا تسلسل ہے اور آج ہم ان تین سوسالہ تاریخ کے امین یہاں بیٹھے ہوئے ہیں'۔

آزادی مارچ پر تنقید کرنے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'ہم نے قوم کی رہبری کرنی ہے، تحریک ایک بھاری بھر کم پتھر کو سمندر میں پھینک کر بھونچال لانے کا نام نہیں، تحریک سمندر کی لہروں کا نام ہے، لہرے چلتی ہیں، نشیب و فراز اور مدو جزر کا شکار بھی ہوتی رہتی ہیں، لہریں کبھی ڈوب بھی جاتی ہیں پھر ابھرتی ہیں اور ساحل پر جاکر دم لیتی ہیں'۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 'عمران خان سن لو یہ تحریک، یہ طوفان، یہ سیلاب آگے بڑھتا جائے گا یہاں تک کہ تجھے اقتدار سے بھی اٹھا کر باہر پھینک دے گا'۔

'بغاوت کا مقدمہ کیوں'

ان کا کہنا تھا کہ 'ہمارے ایک دوست نے کہا ہے کہ فضل الرحمٰن پر بغاوت کا مقدمہ ہونا چاہیے، کیوں اور کس بات پر؟ اس نے کہا ہے کہ وزیراعظم کے گھر پر حملہ کرکے اس کو گرفتار کرلیں گے، میرے محترم دوست ذرا بات کو سمجھنے کی کوشش کرو، جس قوت کے ساتھ آپ یہاں آئے ہیں اگر یہ سیلاب وزیراعظم ہاؤس کی طرف بڑھنے کا فیصلہ کرے تو کسی کا باپ بھی نہیں روک سکتا لیکن ہم پرامن ہیں ہم نے ایسا نہیں کرنا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ 'اس لیے سوچ سمجھ کر بات کیا کریں، ہمیں بغاوت کی باتیں کررہے ہیں ہم اس سے آگے نکل چکے ہیں اور ہم یہ میدان سر کر چکے ہیں اور اب ہم نے اپنی ناموس نہیں اپنی جان اپنی ہتھیلیوں میں رکھا ہوا، تم ہماری حب الوطنی کا مقابلہ نہیں کرسکتے'۔

اپنے خطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ 'آج پاکستان میں ایسے لوگوں کو اعلیٰ مناصب پر فائز کیے گئے جس سے ان مناصب کی بھی بے توقیری کی گئی ہے'۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 'گلی کوچوں کی زبان بولنے والے آج ہمارے ملک کے حکمران بن گئے ہیں، جس قسم کے لوگ ہم پر مسلط ہیں اس سے جان چھڑانی ہے، اس کے مقابلے میں آگے بڑھنا ہے اور جو فیصلہ آپ کی قیادت کرے گی اس کے ساتھ چلنا ہے'۔

اس موقع پر مولانا فضل الرحمٰن نے شرکا سے پوچھا کہ ساتھ چلو گے یا نہیں جس پر شرکا نے بھرپور جواب دیا۔

انہوں نے کہا کہ میں آپ کے جذبے کو سلام پیش کرتا ہوں مجھے اعتماد ہے کہ اگر میں کہوں کہ ایک سال یہاں بیٹھنا ہے تو آپ کہیں گے دو سال بیٹھے رہیں گے اگر میں کہوں ایک مہینہ تو آپ کہیں گے چھ مہینے رہیں گے اس لیے میں آپ کے خلوص کو سلام کرتا ہوں۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 'جو فیصلے ہوں گے اس کی تائید میں یک زبان ہو کر آگے بڑھیں گے ہم آپ سے ایک وعدہ کرتے ہیں کہ پیچھے کی طرف نہیں آگے کی طرف جائیں گے، پسپائی نہیں پیش رفت کریں گے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم میدان میں آئے ہیں اور ڈٹے ہوئے ہیں اور پیچھے ہٹنے کو گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں، ان شااللہ فتح و کامرانی آپ کے قدم چومے گی'۔

جمعیت علمائے اسلام کا اجلاس

قبل ازیں ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمٰن کی زیر صدارت پارٹی کی مرکزی شوریٰ کے اجلاس میں شوریٰ اراکین اور صوبوں کے امیر شریک ہوئے۔

ذرائع نے بتایا کہ اجلاس میں حکومت کو دی گئی ڈیڈ لائن کے بعد اگلی حکمت عملی پر حتمی مشاورت اور پلان بی پر بھی غور کیا گیا۔

علاوہ ازیں اجلاس میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی جانب سے ڈی چوک جانے کی مخالفت کے بعد کی صورتحال پر غور کیا گیا۔

ذرائع کے مطابق اجلاس میں رہبر کمیٹی کی جانب سے احتجاج کو ملک گیر پھیلانے، شٹر ڈاون اور سڑکیں بند کرنے کی تجاویز بھی زیر غور رہیں۔

ساتھ ہی ذرائع نے بتایا کہ اجلاس کے فیصلوں کی روشنی میں مولانا فضل الرحمن آج پنڈال میں اہم اعلان کریں گے۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد میں آزادی مارچ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا تھا کہ ‘ہم تمام اپوزیشن جماعتیں مسلسل رابطے میں ہیں جبکہ یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی آپ کے ساتھ ہے’۔

واضح رہے کہ مولانا فضل الرحمٰن نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ جب تک اس حکومت سے جان نہیں چھوٹتی ہم میدان میں رہیں گے۔

گزشتہ روز آزادی مارچ سے متعلق مشاورت کے لیے اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کا اجلاس جے یو آئی (ف) کے رہنما اکرم خان درانی کی رہائش گاہ پر طلب کیا گیا تھا۔

رہبر کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے کمیٹی کے کنوینر اکرم خان درانی نے کہا تھا کہ اجلاس میں مختلف تجاویز زیر غور آئی ہیں اور ان تجاویز پر تمام جماعتیں تبادلہ خیال کریں گی جس کے بعد فیصلہ کیا جائے گا۔

رہبر کمیٹی نے کہا تھا کہ پارلیمنٹ سے استعفے، شٹرڈاؤن، ہڑتال اور ملک بھر میں احتجاج کے آپشنز زیر غور ہیں۔

گزشتہ روز حکومت کی مذاکراتی کمیٹی نے اپوزیشن کی رہبر کمیٹی سے ٹیلیفونک رابطہ کرکے ملاقات کا وقت مانگا تھا۔

آزادی مارچ یکم نومبر کا جلسہ

واضح رہے کہ 31 اکتوبر کی رات میں آزادی مارچ کے قافلے اسلام آباد میں داخل ہوئے تھے، تاہم آزادی مارچ کے سلسلے میں ہونے والے جلسے کا باضابطہ آغاز یکم نومبر سے ہوا تھا، جس میں مولانا فضل الرحمٰن کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور دیگر رہنماؤں نے خطاب کیا تھا۔

مولانا فضل الرحمٰن نے حکومت مخالف ’آزادی مارچ‘ کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کو استعفیٰ دینے کے لیے دو دن کی مہلت دی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ن) کا جے یو آئی (ف) کے دھرنے میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ

جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے کہا تھا کہ پاکستان پر حکومت کرنے کا حق عوام کا ہے کسی ادارے کو پاکستان پر مسلط ہونے کا کوئی حق حاصل نہیں۔

جلسے سے مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے خطاب میں کہا تھا کہ 'عمران خان کا دماغ خالی ہے، بھیجہ نہیں ہے اور یہ جادو ٹونے سے حکومت چلا رہے ہیں، جادو ٹونے اور پھونکیں مار کر تعیناتیاں ہورہی ہیں'۔

مزید پڑھیں: مولانا فضل الرحمٰن نے کراچی سے آزادی مارچ کا آغاز کردیا

شہباز شریف نے کہا تھا کہ 'مجھے خطرہ یہ ہے کہ یہ جو جادو ٹونے سے تبدیلی لانا چاہتے تھے وہ پاکستان کی سب سے بڑی بربادی بن گئی ہے، میں نے 72 برس میں پاکستان کی اتنی بدتر صورتحال نہیں دیکھی'۔

علاوہ ازیں پاکستان پپپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے آزادی مارچ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'مولانا فضل الرحمٰن اور متحد اپوزیشن کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ہر جمہوری قدم میں ہم ساتھ ہوں گے اور ہم اس کٹھ پتلی، سلیکٹڈ وزیراعظم کو گھر بھیجیں گے'۔

پیپلزپارٹی، ن لیگ کا دھرنے میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ

اس آزادی مارچ کے جلسے میں شرکت کے باوجود یہ خبریں سامنے آئی تھیں کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے دھرنے میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس حوالے سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال نے کہا تھا کہ پارٹی کے تاحیات قائد نواز شریف نے انہیں آزادی مارچ میں صرف ایک روز کے لیے شرکت کرنے کا کہا تھا۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے سیکریٹری جنرل فرحت اللہ بابر نے بھی بتایا کہ ان کی پارٹی نے کثیر الجماعتی کانفرنسز (ایم پی سی) اور رہبر کمیٹی کے اجلاس کے دوران واضح کردیا تھا کہ وہ غیر معینہ مدت تک جاری رہنے والے دھرنے میں شرکت نہیں کریں گے۔

جے یو آئی (ف) کا ’آزادی مارچ‘ کب شروع ہوا؟

واضح رہے کہ جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے 25 اگست کو اعلان کیا تھا کہ ان کی جماعت اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کا ارادہ رکھتی ہے، جس کا مقصد اکتوبر میں 'جعلی حکومت' کو گھر بھیجنا ہے۔

ابتدائی طور پر اس احتجاج، جسے 'آزادی مارچ' کا نام دیا گیا تھا، اس کی تاریخ 27 اکتوبر رکھی گئی تھی لیکن بعد ازاں مولانا فضل الرحمٰن نے اعلان کیا تھا کہ لانگ مارچ کے شرکا 31 اکتوبر کو اسلام آباد میں داخل ہوں گے۔

مذکورہ احتجاج کے سلسلے میں مولانا فضل الرحمٰن نے اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتوں کو شرکت کی دعوت دی تھی۔

18 اکتوبر کو مسلم لیگ (ن) نے آزادی مارچ کی حمایت کرتے ہوئے اس میں بھرپور شرکت کا اعلان کیا تھا تاہم 11 ستمبر کو پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے مولانا فضل الرحمٰن کے اسلام آباد میں دھرنے میں شرکت سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اخلاقی اور سیاسی طور پر ان کے احتجاج کی حمایت کرتے ہیں۔

حکومت نے اسی روز اپوزیشن سے مذاکرات کے لیے وزیر دفاع پرویز خٹک، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی تھی۔

پی پی پی کی جانب سے تحفظات اور ناراضی کا اظہار کیے جانے کے بعد مولانا فضل الرحمٰن، پیپلز پارٹی کو منانے کے لیے متحرک ہوگئے تھے اور حکومتی کمیٹی سے مذاکرات منسوخ کردیے تھے۔

بعدازاں وفاقی حکومت نے اسلام آباد میں اپوزیشن جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کو 'آزادی مارچ' منعقد کرنے کی مشروط اجازت دینے کا فیصلہ کیا تھا۔

جس کے بعد جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں آزادی مارچ کا آغاز 27 مارچ کو کراچی سے ہوا تھا جو سندھ کے مختلف شہروں سے ہوتا ہوا لاہور اور پھر گوجر خان پہنچا تھا اور 31 اکتوبر کی شب راولپنڈی سے ہوتا ہوا اسلام آباد میں داخل ہوا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024