• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

سانحہ تیزگام: ریلوے حکام کی غفلت حادثے کا باعث بنی، عہدیدار

شائع November 3, 2019
سی ای او ریلوے کے مطابق سیکیورٹی اور حفاظتی اقدامات کی ناقص صورتحال کی وجہ سے المناک حادثہ پیش آیا — فوٹو: عدنان شیخ
سی ای او ریلوے کے مطابق سیکیورٹی اور حفاظتی اقدامات کی ناقص صورتحال کی وجہ سے المناک حادثہ پیش آیا — فوٹو: عدنان شیخ

لاہور: پاکستان ریلوے کے عہدیدار کا کہنا ہے کہ اسٹیشنز اور ٹرینوں میں ڈیوٹی پر مامور ریلوے پولیس، کنڈیکٹر گارڈز، ٹکٹ چیکرز و دیگر، قوانین اور ایس او پیز کے مطابق فرائض سر انجام دیتے تو یہ سانحہ ہونے سے روک سکتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ریلوے انتظامیہ، آپریشنل اور سیکیورٹی کے سنگین نقائص کے باعث تیزگام ٹرین کا سانحہ پیش آیا کیونکہ ایسے حادثات کی روک تھام پر مامور عہدیداران نے متعلقہ قوانین اور اسٹینڈرڈ آپریشن پروسیجرز (ایس او پیز) کو نظر انداز کرتے ہوئے فرائض میں غفلت برتی۔

ریلوے ایکٹ 1890 کے سیکشن 59 (1) کے تحت کسی مسافر یا شخص کو ٹرین، اسٹیشن یا دفاتر میں کوئی خطرناک سامان لے جانے کی اجازت نہیں۔

اسی طرح کوچنگ ٹیرف کے آرٹیکل 6.5 کے مطابق 'دھماکا خیز، خطرناک اور آتش گیر' اشیا بُک نہیں کروائی جاسکتیں۔

مزید پڑھیں: سانحہ تیزگام: ابتدائی تحقیقات میں آگ کی وجہ سلنڈر دھماکا قرار

علاوہ ازیں ریلوے ایکٹ میں شامل احتیاطی تدابیر کی شق نمبر 2 میں ٹرین کے کمپارٹمنٹس میں تیل والے چولہے اور کسی قسم کی آگ جلانے سے منع کیا گیا ہے۔

پاکستان ریلوے کی رپورٹ کے مطابق 'مسافروں اور ٹرین کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے انتباہ جاری کی گئی ہیں، ماضی میں ایسے کیسز سامنے آئے تھے جب ایسی لاپرواہی کے نتیجے میں مسافروں کی جانیں گئیں، مسافر زخمی ہوئے اور بوگیو کو شدید نقصان پہنچا'۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ٹرین میں آتشزدگی کے باعث 8 ٹرینیں 4 سے 7 گھنٹے تک لیاقت پور، خان پور، رحیم یار خان، کوٹ سمبا، ترنڈہ اور سہجا کے اسٹیشنز پر کھڑی رہیں۔

ریلوے عہدیدار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ٹرین میں چولہے اور سلنڈرز لے جانے والے لوگ غلطی پر تھے اور اسٹیشن کی حدود میں داخل ہوتے وقت ان کے سامان کی تلاشی لینے پر انہیں نہ روکنے والے ریلوے حکام بھی قصور وار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 'میں سمجھتا ہوں کہ اسٹیشنز اور ٹرینوں میں ڈیوٹی پر مامور ریلوے پولیس، کنڈیکٹر گارڈز، ٹکٹ چیکرز، اسٹیشن ماسٹرز، اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹرز اور دیگر افراد کو قانونی اور اخلاقی طور پر گیس سلنڈر جیسی اشیا کے ساتھ داخل ہونے والے مسافروں کو روکنا چاہیے'۔

عہدیدار نے کہا کہ 'اگر انہوں نے قوانین اور ایس او پیز کے مطابق فرائض سر انجام دیے ہوتے تو وہ یہ سانحہ ہونے سے روک سکتے تھے'۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ تیز گام: لاشوں کی شناخت کیلئے ڈی این اے ٹیسٹ کروانے کا فیصلہ

انہوں نے کہا کہ ٹرین میں سامان کے ساتھ سوار ہونے والے مسافروں کی تعداد چیک کرنے پر مامور افراد سے بھی سوال ہونا چاہیے جو اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ مسافروں کی تعداد کوچ کی گنجائش کے مطابق ہے۔

عہدیدار نے مزید کہا کہ 'میں حیران ہوں کہ اتنے زیادہ سامان کے ساتھ 85 سے زائد مسافر ایک اکانومی کلاس بوگی میں سوار ہونے میں کیسے کامیاب ہوئے جس میں صرف 75 مسافروں کی گنجائش ہوتی ہے'۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے پاکستان ریلوے کے چیف ایگزیکٹو آفسر (سی ای او) نے سیکیورٹی کی ناقص صورتحال کا اعتراف کیا اور کہا کہ انکوائری رپورٹ میں ذمہ دار قرار دیے جانے والے افراد کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ 'یہ سچ ہے کہ سیکیورٹی اور حفاظت کی ناقص صورتحال کی وجہ سے المناک حادثہ پیش آیا لہذا ہم حادثے کے ذمہ دار عہدیداران کو معاف نہیں کریں گے'۔

سی ای او نے مزید بتایا کہ انہوں نے مسافروں کو اس حوالے سے آگاہ کرنے کے لیے مہم کا آغاز بھی کیا ہے۔


یہ خبر 3 نومبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024