حکومت سے نجات تک ہم میدان میں رہیں گے، مولانا فضل الرحمٰن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک اس حکومت سے جان نہیں چھٹتی ہم میدان میں رہیں گے۔
اسلام آباد میں آزادی مارچ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ‘ہم تمام اپوزیشن جماعتیں مسلسل رابطے میں ہیں جبکہ یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی آپ کے ساتھ ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف اور بلاول بھٹو یہاں آئے اور خطاب کیا اسی طرح آج رہبر کمیٹی کا اجلاس ہوا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ‘نکمے حکمران پاکستان کے لیے رسک بن چکے ہیں، جب سے یہ اقتدار میں آئے ہیں 70 برسوں کی تمام حکومتوں کے قرضے اکٹھے کر لو ایک سال کے ان کے قرضے سب سے اوپر ہیں’۔
مزید پڑھیں:آزادی مارچ: 2 دن کی مہلت ہے وزیراعظم استعفیٰ دے دیں، مولانا فضل الرحمٰن
ان کا کہنا تھا کہ ‘اتنے قرضے قوم پر لاد دیے گئے ہیں جب حکومت بنی تو روپے کی قدر 104 اور 105 پر تھی اور آج 160 پر چلی گئی ہے افراط زر بڑھ چکا ہے’۔
سربراہ جے یو آئی ایف نے کہا کہ ‘غریب انسان آج پاکستان میں کرب میں مبتلا ہیں اس کی کمر ٹوٹ گئی ہے وہ بچوں کے لیے راشن خریدنے کے قابل نہیں رہا ہے اس لیے حکومت کو جتنے دن مزید ملیں گے، پاکستان پستی کی طرف جائے گا اور انحطاط کا شکار ہوگا’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘جب تک اس حکومت سے جان نہیں چھٹتی ہم بھی میدان میں رہیں گے’۔
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رہنما افتخار حسین کی موجودگی میں مارچ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'لوگ کہتے ہیں یہاں 126 دن دھرنا ہوا تھا لیکن یہ ہمارے لیے کوئی آئیڈیل نہیں اور نہ ہم اس کے پیروکار ہیں'۔
انہوں نے کہا کہ 'ہماری تاریخ تحریکوں سے بھری ہوئی ہے، تحریک جہد مسلسل کا نام ہے اور ہم نے کل اور پرسوں تک فیصلے کرنے ہیں کہ آنے والے دنوں میں اس سے سخت اور کیا فیصلہ کرسکتے ہیں تاکہ ہم اس میدان سے دوسرے موثر میدان کی طرف منتقل ہوجائیں اور اس حکومت کے خلاف تحریک کا تسلسل برقرار رہے گا'۔
یہ بھی پڑھیں:آزادی مارچ: پارلیمنٹ سے استعفے، ملک گیر شٹرڈاؤن زیر غور ہے، رہبر کمیٹی
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 'ہم حالات کو بگاڑنا نہیں چاہتے ہیں، 9 ماہ میں 15 ملین مارچ اس گواہی کے لیے کافی ہے کہ کس طرح منظم رہے اور کس طرح انہوں نے امن و امان کو برقرار رکھاہیے، آج پورے ملک سے 4 اور 5 دن کا سفر طے کر کے اسلام آباد پہنچنے والے قافلوں نے کس طرح نظم کا مظاہرہ کیا ہے، راستے میں نہ کوئی مریض متاثر ہوا اور نہ کوئی راہگیر متاثر ہوا'۔
'ہماری خواتین کو جلسے میں آنے سے کسی نے نہیں روکا'
سربراہ جمعیت علمائے اسلام (ف) نے کہا کہ 'کبھی کہتے ہیں اس اجتماع میں خواتین نہیں ہیں، ہر معاشرے کے اپنے کچھ اقدار ہوا کرتے ہیں، ہماری خواتین کو جلسے میں آنے سے کسی نے نہیں روکا'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہماری خواتین گھروں میں بیٹھ کر اس اجتماع سے وابستہ ہیں اس کے لیے روزے رکھ رہی ہیں، اذکار کررہی ہیں اور دعائیں کررہی ہیں اللہ کے سامنے گڑگڑا رہی ہیں اور آپ یہاں جتنے مرد بیٹھے ان کو عورتوں کے ساتھ ملا کر دوگنا کرکے دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ پاکستان کی کل آبادی کس قدر آپ کے خلاف سراپا احتجاج ہے'۔
خواتین کی نمائندگی پر ان کا کہنا تھا کہ 'ہماری خواتین قومی اسمبلی میں جمعیت علمائے اسلام کی نمائندگی کررہی ہیں، سینیٹ میں ہیں اور صوبائی اسمبلیوں میں ہیں، اقلتیں ہیں، غیر مسلم ہمارے نمائندے ہیں، ہندو اور سکھ ہمارے وزیر رہے ہیں اور آج بھی اسمبلیوں میں ہمارے رکن ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہمارے ہاں جتنی اقلیتوں کو جگہ دینے کی گنجائش ہے وہ شاید ہی کسی کے پاس ہو، یہ تنگ نظری آپ کے پاس ہیں، آپ حجت پسند ہیں، جب بھی کوئی بات ہوتی ہے واپس 1947 میں چلے جاتے ہو، تم بھی 1947 میں گھوم رہے ہو اور ہم اس سے 72 سال آگے جا چکے ہیں'۔
مزید پڑھیں:وزیراعظم سے متعلق فضل الرحمٰن کا بیان، حکومتی کمیٹی کا عدالت جانے کا اعلان
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 'ہم ترقی پسند ہیں اور آگے جا کر بات کرنے والے ہیں، آج کے پاکستان کی بات کرو، آج کا پاکستان تمھارے ہاتھوں وہ پاکستان نہیں جس کا تصور اقبال اور قائد اعظم نے پیش کیا تھا، جو بات انہوں نے کی تھی ہم اسی کے مطابق پاکستان کا آئین اور قانون بنانا چاہتے ہیں، پاکستان کی خارجہ پالیسی اور معیشت کو اسی بنیاد پر استوار کرنا چاہتے ہیں'۔
انہوں نے کہا کہ 'تمھاری حماقتوں کی وجہ سے آج پاکستان تنہائی کا شکار ہے، ہندوستان آپ کا دشمن، افغانستان اور ایران آپ سے ناراض، چین آپ سے مایوس ہے، آپ کہاں کھڑے ہیں اور آپ کی خارجہ پالیسی کیا ہے'۔
حکومت کی خارجہ پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'کشمیر کے مسئلے پر اقوام متحدہ میں جو ہمارے مستقل دوست ہوا کرتے تھے اور ہر لمحے پاکستان کے ساتھ ووٹ دیا کرتے تھے آج کشمیر کے مسئلے پر ان دوستوں نے ہمیں ووٹ نہیں دیا'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'کشمیر کے مسئلے کو پیچیدہ بنادیا ہے اور کس منہ سے کشمیر کی بات کررہے ہو، کشمیر کے نمائندے ہم ہیں، آپ کہتے ہیں وزیراعظم ہوں، وزیراعظم ہوتو زبان بھی وزیراعظم کی ہونی چاہیے، دعویٰ وزیراعظمی کا ہے، یہ گالم گلوچ بریگیڈ ہے، ان کو گالیوں اور جھوٹ بولنے کے سوا کچھ نہیں آتا'۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 'آپ کو الزام تراشیوں کے سوا کچھ نہیں آتا، یہاں کسی نے افغان طالبان کا جھنڈا لہرایا تو تصاویر لے کر الزام لگایا، طالبان جن کو آپ دہشت گرد کہتے ہیں، پاکستان میں صدارتی پروٹوکول کے اس حکومت نے ان کا استقبال کیا ہے، صدارتی پروٹوکول کے ساتھ امریکا نے ان سے مذاکرات کیے ہیں اور ہمیں کہتے ہو آپ کے جلسے میں بچہ کیوں آیا ہے جس نے ان کا جھنڈا اٹھایا ہوگا'۔
'انتظامیہ یہاں فساد پیدا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے'
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 'انتظامیہ فساد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، ہم ان کو ایسا کوئی موقع نہیں دیں گے لیکن ایسے مواقع حاصل کرنے کے لیے ان کو بھی عقل سے کام لینا چاہیے ورنہ ہمارا یہ جلسہ پورے اسلام آباد کے لیے کافی ہے، یہ عوام پوری حکومت کے لیے کافی ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ قافلہ آج بھی آرہے ہیں اور کل بھی آئیں گے لیکن اپنی مشکل سے اپنے ساتھیوں سے ذکر کیا ہے کہ ابھی ہمارے قافلے آرہے ہیں اور اس اجتماع میں شریک ہونا چاہتے اور ان کے آنے سے پہلے اجتماع کیسے ختم کرسکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:پیپلزپارٹی، مسلم لیگ(ن) کا جے یو آئی (ف) کے دھرنے میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ
مارچ کے شرکا سے انہوں نے کہا کہ 'میں آپ سے عہد لینا چاہتا ہوں کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) سمیت دیگر تمام اپوزیشن جماعتیں اپنے اگلے اقدامات کے بارے میں جو بھی حکم دیں گی آپ اس پر لبیک کہیں گے'۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے جو مقصد حاصل کیا اس کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا، کوئی جماعت 100 سال میں بھی وہ مقاصد حاصل نہیں کرسکتی جو آپنے تین دن میں حاصل کیا ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے خواتین کی نمائندگی پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'خواتین کی بات ہوتی ہے تو فاطمہ جناح کو ایوب خان کے مقابلے میں کس نے شکست دلوائی تھی وہ لوگ ہم سے خواتین کی بات کرتے ہیں، قائد اعظم کی بہن کو ایوب خان سے کس نے شکست دلائی تھی'۔
انہوں نے کہا کہ 'فوجی مرد کے مقابلے میں ایک جمہوری خاتون کو کس طرح شکست سے دوچار کیا یہ چیزیں تاریخ کا حصہ بن رہی ہیں اور تاریخ کا قلم بڑا بے رحم ہوا کرتا ہے، آج کے حالات اور اجتماع بھی تاریخ پر ثبت ہوچکا ہے کہ یہ قوم کس لیے باہر نکلی تھی اور حکمرانوں کا انجام کیا ہوگا اس کے لیے بھی تاریخ کا قلم انتظار کررہا ہے'۔
سربراہ جمعیت علمائے اسلام نے کہا کہ 'ہم ان شااللہ پرامن رہیں گے، آگے جو مراحل ہیں وہ بھی ہم نے مل کر طے کرنا ہے اور آگے بڑھنا ہے تاکہ تسلسل نہ ٹوٹے کیونکہ تحریک جہد مسلسل کا نام ہے، ہم اس سے آگے اور میدان میں جائیں گے یہاں تک کہ ان ناجائز حکمرانوں کا تختہ الٹ دیں'۔
انہوں نے آزادی مارچ کے شرکا کو ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اسی استقامت کے ساتھ یہاں رہنا ہے جب تک پوری اپوزیشن یہاں رہنے کا فیصلہ کرتی ہے اور اگلا قدم نہیں بتاتی کہ کہاں جانا ہے اس وقت تک یہاں رہنا ہے۔
یاد رہے کہ مولانا فضل الرحمٰن نے گزشتہ روز اپنے خطاب میں حکومت کو مستعفی ہونے کے لیے دو روز کی مہلت دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر دو روز میں استعفیٰ نہیں دیا گیا تو ہم مزید صبر و تحمل کا مظاہرہ نہیں کرسکیں گے۔