مقبوضہ کشمیر کی تقسیم پر عملدرآمد، سڑکیں صحرا کا منظر پیش کرنے لگیں
بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خود مختاری واپس لینے اور اسے 2 وفاقی اکائیوں میں باضابطہ تبدیل کرنے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں دکانیں اور دفاتر بند رہے جبکہ سڑکیں صحرا کا منظر پیش کرنے لگیں۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے اگست میں مقبوضہ کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے اور خطے پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے فیصلے پر کشمیریوں نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔
گزشتہ رات 12 بجے کے بعد وفاقی حکومت کے احکامات پر عمل درآمد کا آغاز ہوا جس کے ساتھ مقبوضہ جموں و کشمیر 2 وفاقی اکائیوں میں تبدیل ہوگیا جس میں ایک جموں و کشمیر اور دوسرا بدھ مت اکثریتی لداخ کا علاقہ شامل ہے۔
دونوں علاقوں پر حکمرانی نئی دہلی کی ہوگی اور نئے لیفٹننٹ گورنر آج وہاں اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔
تاہم کشمیری عوام کی سب سے بڑی تشویش وہاں غیر علاقائی بھارتیوں کی جانب سے زمینیں خریدنے کا خدشہ ہے۔
ریٹائرڈ کشمیری جج اور بھارتی پارلیمنٹ کے رکن حسنین مسعودی کا کہنا تھا کہ 'جمعرات کو ہر چیز تبدیل ہوگئی ہے، یہ تمام اقدام غیر آئینی ہیں اور اس کا طریقہ کار بھی غیر جمہوری ہے، عوام کی تضحیک کی گئی ہے اور ان سے کبھی رائے بھی نہیں لی گئی'۔
مزید پڑھیں: آرٹیکل 370 کی منسوخی، مقبوضہ کشمیر آج دو حصوں میں تقسیم ہوجائے گا
حسن مسعودی نیشنل کانفرنس کے رہنما ہیں جو بھارت کی حمایت کرنے والی کشمیر کی سیاسی جماعت ہے۔
بھارتی حکام نے اس جماعت کے کئی رہنماؤں کو بھی حراست میں لے رکھا ہے۔
معلومات کی جنگ
مقبوضہ کشمیر میں 5 اگست کو بڑی تبدیلی کے بعد حکام نے 1 کروڑ 25 لاکھ آبادی والے خطے میں انٹرنیٹ، موبائل، لینڈ لائن اور کیبل کی سروس معطل کردی تھی۔
ان پابندیوں کی وجہ سے کاروبار اور تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہوئیں اور عوام کے حوصلے پست ہوئے۔
عالمی دباؤ کے پیش نظر حکام نے پابندیوں میں نرمی کا آغاز کردیا ہے، بند سڑکوں کو کھولا جارہا ہے اور لینڈ لائن اور چند موبائل فون کی سروسز بھی بحال کردی گئی ہیں۔
اس کے باوجود زیادہ تر کشمیری تشدد کے خدشات کے پیش نظر خوف سے گھر میں ہی محصور ہیں۔
حکام نے اب بھی انٹرنیٹ سروس محدود رکھی ہوئی ہے اور کہا ہے کہ 'انٹرنیٹ کو استعمال کرتے ہوئے بھارت مخالف احتجاجی مظاہرے منظم ہوسکتے ہیں'۔
احتجاج اور گرفتاریاں
ہزاروں اضافی فوجی اہلکاروں کی تعیناتی کے باوجود خطے میں بھارت مخالف مظاہرے اور جھڑپ جاری ہیں۔
سرکاری فورسز نے سڑکوں پر مارچ کرنے اور پتھر برسانے والے مظاہرین پر آنسو گیس، شاٹ گنز اور دیگر اسلحہ استعمال کیا ہے جس کے نتیجے میں 3 افراد ہلاک اور کئی سو زخمی ہوئے۔
اگست کے پہلے ہفتے میں نافذ کیے گئے سیکیورٹی لاک ڈاؤن کے بعد سے اب تک 4 ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے جن میں زیادہ تر تعداد نوجوانوں کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اقوام متحدہ کا مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی مکمل بحالی کا مطالبہ
بھارتی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ تقریباً 3 ہزار افراد کو اب تک رہا بھی کردیا گیا ہے۔
گرفتار افراد میں سے 250 افراد کو مقبوضہ کشمیر سے باہر بھارت کی متعدد جیلوں میں قید کیا گیا ہے۔
ریکارڈز کے مطابق ان میں سے 300 افراد کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا جو حکام کو بغیر ٹرائل کے 2 سے 3 سال تک عوام کو جیل میں قید رکھنے کا اختیار دیتی ہے۔
سپریم کورٹ کی لڑائی
کشمیری عوام کی امید اب بھارت کی سپریم کورٹ پر ہے جو آئین کے آرٹیکل 370 واپس لینے کے خلاف متعدد درخواستوں پر نومبر کے آغاز سے سماعت کرے گی۔
ان سماعتوں کا فیصلہ چند ماہ میں سامنے آنے کی امید کی جارہی ہے۔
مودی کا منصوبہ
مودی حکومت نے دعویٰ کیا ہے مقبوضہ کشمیر کی نئی حیثیت سے یہاں عوام کو اس کے گزشتہ خصوصی حیثیت کے تحت نہ ملنے والے حقوق دیے گئے ہیں جن میں تعلیم کا حق، کم از کم تنخواہ کا قانون اور اقلیتوں کے حقوق کی یقین دہانی کرانے وغیرہ شامل ہیں۔
مودی کا کہنا ہے کہ بھارت کے خلاف بغاوت کے خاتمے سے کشمیر میں سیاحت میں اضافہ ہوگا اور بیرونی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہوگی جس سے معیشت بھی بہتر ہوگی۔
پاکستان کا رد عمل
پاکستان نے بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں تبدیلیوں پر سخت رد عمل دیتے ہوئے نئی دہلی سے سفارتی تعلقات ختم کرلیے ہیں اور باہمی تجارت کا بھی خاتمہ کردیا ہے۔
پاکستان نے اپنی ٹرین، بس اور پوسٹل سروسز بھی بند کردی ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ، عالمی انسانی حقوق کے اداروں اور دیگر فورمز پر اس معاملے کو اٹھایا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان، بھارتی قبضے پر کشمیریوں کے ساتھ سفارتی تعاون جاری رکھے گا۔