• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

چوہدری شوگر ملز کیس: مریم نواز کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ

شائع October 31, 2019 اپ ڈیٹ November 4, 2019
مریم نواز کی درخواست پر فیصلہ کل سنایا جائے گا —فائل فوٹو: عدنان شیخ
مریم نواز کی درخواست پر فیصلہ کل سنایا جائے گا —فائل فوٹو: عدنان شیخ

لاہور ہائیکورٹ نے مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کی چوہدری شوگر ملز کیس میں درخواست ضمانت پر دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا، جسے 4 نومبر کو سنایا جائے گا۔

صوبائی دارالحکومت لاہور کی عدالت عالیہ کے 2 رکنی بینچ نے جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں مریم نواز کی درخواست ضمانت پر سماعت کی۔

اس موقع پر قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے وکیل جہانزیب بھروانہ نے آج (جمعرات) دلائل دینا شروع کیے، گزشتہ روز مریم نواز کے وکیل نے دلائل دیئے تھے۔

دلائل کے آغاز پر نیب کے وکیل نے مریم نواز کی درخواست ضمانت کی مخالفت کی اور کہا کہ مریم نواز کی انسانی بنیادوں پر درخواست ضمانت پر عمل نہیں ہو سکتا۔

مزید پڑھیں: چوہدری شوگر ملز کیس: خاتون ہونے کی بنیاد پر مریم نواز کی ضمانت ہونی چاہیے، وکیل

انہوں نے بتایا کہ مریم نواز کو جیل سپرنٹنڈنٹ نے والد سے ملاقات کی اجازت دے دی تھی، سپریم کورٹ کے فیصلوں میں طے ہو چکا ہے کہ ملزم کی ضمانت غیر معمولی حالات میں منظور کی جا سکتی ہے لیکن یہاں نہیں لگتا کہ مریم نواز کو غیر معمولی حالات کا سامنا ہے۔

نیب کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ چیئرمین نیب نے قانون کے مطابق مریم نواز کی گرفتاری کے لیے وارنٹ جاری کیے اور مریم نواز کا کیس غیر معمولی حالات میں نہیں آتا۔

ان کا کہنا تھا کہ 19 فروری 2018 کو مریم نواز کے خلاف انکوائری کا آغاز ہوا، دسمبر 2018 میں انکوائری کو انویسٹی گیشن میں بدل دیا گیا، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ چوہدری شوگر ملز جعلی اکاؤنٹس چلانے میں اہم کردار ادا کرتی رہی، لہٰذا نیب قانون کے مطابق انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت کارروائی کی جاسکتی ہے۔

اس پر جسٹس علی باقر نجفی نے پوچھا کہ کیا مریم نواز شریف بھی کسی ریفرنس میں سزا یافتہ ہیں، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ مریم نواز نیب کے ایک ریفرنس میں سزا یافتہ ہیں اور انہیں 7 سال قید کی سزا دی گئی تھی، تاہم اسلام آباد ہائیکورٹ نے مریم نواز کی سزا معطل کر رکھی ہے۔

وکیل کے جواب پر جسٹس علی باقر نجفی نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ نے چوہدری شوگر ملز کے حوالے سے بھی کوئی گائیڈ لائنز دی تھیں، جس پر نیب کے وکیل نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کی تحقیقات کے بعد ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا تھا کہ نیب اگر چاہے تو ضمنی ریفرنس بھی دائر کر سکتا ہے۔

جس پر جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ سپریم کورٹ نے پہلے سے زیر سماعت ریفرنس میں ضمنی ریفرنس دائر کرنے کی اجازت دی تھی نا کہ نئے ریفرنس کی۔

اس پر وکیل نے کہا کہ انکم ٹیکس ریٹرن کے ریکارڈ کے مطابق مریم نواز کے اثاثے ان کی آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے، مریم نواز نے کئی سال ٹیکس ریٹرن جمع بھی نہیں کرائیں جبکہ مریم نواز کو کروڑوں روپے بطور تحائف ملے۔

دوران سماعت نیب کی جانب سے مریم نواز کی ایس ٹی آر (خفیہ ٹرانزیکشنز) کی رپورٹ عدالت میں پیش کی اور بتایا کہ چوہدری شوگر مل کے نام پر جعلی اکاونٹس کھول کر قرض لیا گیا اور ادا بھی کیا گیا۔

وکیل کی پیش کردہ رپورٹ پر جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ اس رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد لگ رہا ہے کہ ٹرانزیکشنز نواز شریف کے اکاؤنٹس سے ہوئی ہیں، مریم کا لنک نظر نہیں آرہا، آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم مریم نواز کا کیس سن رہے ہیں نواز شریف کا نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: مریم نواز کی اپنے والد سے ہسپتال میں ملنے کی درخواست مسترد

اس پر وکیل نے کہا کہ مریم نواز چوہدری شوگر ملز کی سی ای او اور شیئر ہولڈر رہی ہیں، مریم نواز سے پوچھا گیا کہ چوہدری شوگر ملز میں ان کے 47 فیصد شیئرز ہیں، بتائیں کہاں سے آئے ہیں۔

وکیل نے کہا کہ مریم نواز اپنے جواب کے ذریعے نیب کو مطمئن نہ کر سکیں، مریم نواز کی گرفتاری کے لیے جاری کیے گئے وارنٹس میں 4 الزامات لگائے گئے، مریم نواز کے اثاثے ان کی آمدن سے زائد ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مریم نواز نے لاکھوں ڈالرز منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک بھجوائے، شمیم شوگر مل کو بنانے کے لیے مریم نواز کے پاس فنڈز کہاں سے آئے؟ مریم نواز یہ بتانے میں ناکام رہیں، ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ چوہدری شوگر ملز کے اکاونٹس سے شمیم شوگر مل کے اکاونٹ میں بھاری رقم ٹرانسفر کی گئی.

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 84 لاکھ ڈالرز یوسف عباس کو دبئی سے بھجوائے گئے جبکہ دبئی میں ان کا کوئی کاروبار نہیں، یوسف عباس نے یہ پیسے چوہدری شوگر مل میں منتقل کر دیے، اس پر جسٹس علی باقر نجفی نے استفسار کیا کہ پیسے آئے یا بھجوائے گئے اس میں کرپشن کا کیا عنصر ہے، کیا ملک میں کاروبار کے لیے پیسہ لانا جرم ہے۔

اس پر وکیل نے کہا کہ مریم نواز نے منی لانڈرنگ میں اہم کردار ادا کیا، چوہدری شوگر ملز کے بینک اکاونٹس سے مریم نواز کے ذاتی اکاونٹ میں بڑی رقم بھجوائی گئی۔

بعد ازاں نیب کے وکیل نے دلائل مکمل کرلیے، جس کے بعد عدالت عالیہ کے 2 رکنی بینچ نے کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا، جسے 4 نومبر کو سنایا جائے گا۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز سماعت کے دوران مریم نواز کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ نے دلائل دیے تھے اور کہا تھا کہ نیب نے ان کی موکلہ پر کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز کا جھوٹا الزام لگایا جبکہ مریم نواز ایک خاتون ہیں، اس بنیاد پر بھی ان کی ضمانت ہونی چاہیے۔

مریم نواز کی درخواست

خیال رہے کہ 24 اکتوبر کو مریم نواز نے چوہدری شوگر ملز کیس میں ضمانت کے لیے ایک اور متفرق درخواست دائر کی تھی، جس پر عدالت نے نیب سے جواب مانگا تھا۔

تاہم 25 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نیب جواب جمع نہیں کروا پایا تھا جس کے بعد عدالت نے مریم نواز کی درخواست ضمانت سے متعلق دونوں درخواستوں پر سماعت کو ملتوی کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: احتساب عدالت: چوہدری شوگر ملز کیس میں مریم نواز کے عدالتی ریمانڈ میں توسیع

اگلے روز نیب کی جانب جواب جمع کروایا گیا تھا، جس میں مریم نواز کی درخواست ضمانت کی مخالفت کی گئی تھی۔

واضح رہے کہ عدالت میں دائر درخواست میں مریم نواز نے موقف اختیار کیا تھا کہ وہ ملک کے 3 مرتبہ منتخب وزیراعظم کی بیٹی ہیں، نیب کی جانب سے ان پر جھوٹا کیس بنایا گیا ہے جبکہ نیب کمپنیز ایکٹ کے تحت کارروائی نہیں کرسکتا۔

مریم نواز نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ چوہدری شوگر ملز کیس میں ان کی ضمانت منظور کرکے رہائی کا حکم دیا جائے۔

چوہدری شوگر ملز کیس

خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت کے دوران جنوری 2018 میں ملک میں مالی امور کی نگرانی کرنے والے شعبے نے منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت چوہدری شوگر ملز کی بھاری مشتبہ ٹرانزیکشنز کے حوالے سے نیب کو آگاہ کیا تھا۔

بعدازاں اکتوبر 2018 میں نیب کی تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی تھی کہ نواز شریف، مریم نواز، شہباز شریف اور ان کے بھائی عباس شریف کے اہلِ خانہ، ان کے علاوہ امریکا اور برطانیہ سے تعلق رکھنے والے کچھ غیر ملکی اس کمپنی میں شراکت دار ہیں۔

ذرائع نے بتایا تھا کہ چوہدری شوگر ملز میں سال 2001 سے 2017 کے درمیان غیر ملکیوں کے نام پر اربوں روپے کی بھاری سرمایہ کاری کی گئی اور انہیں لاکھوں روپے کے حصص دیے گئے۔

اس کے بعد وہی حصص متعدد مرتبہ مریم نواز، حسین نواز اور نواز شریف کو بغیر کسی ادائیگی کے واپس کیے گئے جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ کمپنی میں بھاری سرمایہ کاری کے لیے غیر ملکیوں کا نام اس لیے بطور پراکسی استعمال کیا گیا کیوں کہ شریف خاندان کی جانب سے سرمایہ کاری کے لیے استعمال کی جانے والی رقم قانونی نہیں تھی۔

مزید پڑھیں: چوہدری شوگر ملز کیس: مریم نواز کی درخواست پر نیب کا جواب جمع

جس پر 31 جولائی کو تفتیش کے لیے نیب کے طلب کرنے پر وہ پیش ہوئیں تھیں اور چوہدری شوگر ملز کی مشتبہ ٹرانزیکشنز کے سلسلے میں 45 منٹ تک نیب ٹیم کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کروایا تھا۔

رپورٹ کے مطابق یوسف عباس اور مریم نواز نے تحقیقات میں شمولیت اختیار کی تھی لیکن سرمایہ کاری کرنے والے غیر ملکیوں کو پہچاننے اور رقم کے ذرائع بتانے سے قاصر رہے اور مریم نواز نوٹس میں بھجوائے گئے سوالوں کے علاوہ کسی سوال کا جواب نہیں دے سکی تھیں۔

جس پر نیب نے مریم نواز کو 8 اگست کو دوبارہ طلب کرتے ہوئے ان سے چوہدری شوگر ملز میں شراکت داری کی تفصیلات، غیر ملکیوں، اماراتی شہری سعید سید بن جبر السویدی، برطانوی شہری شیخ ذکاؤ الدین، سعودی شہری ہانی احمد جمجون اور اماراتی شہری نصیر عبداللہ لوتا سے متعلق مالیاتی امور کی تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت کی تھی۔

اس کے ساتھ مریم نواز سے بیرونِ ملک سے انہیں موصول اور بھیجی جانے والی ترسیلاتِ زر/ٹیلیگرافگ ٹرانسفر کی تفصیلات بھی طلب کی گئی تھیں۔

8 اگست کو ہی قومی احتساب بیورو نے چوہدری شوگر ملز کیس میں مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کو گرفتار کر کے نیب ہیڈکوارٹرز منتقل کر دیا تھا۔

جس کے بعد ان کے جسمانی ریمانڈ میں کئی مرتبہ توسیع کی گئی تھی، جس کے بعد عدالت نے انہیں 4 ستمبر کو مزید 14 روزہ ریمانڈ پر نیب کے حوالے کردیا تھا۔

18 ستمبر کو انہیں دوبارہ عدالت میں پیش کیا گیا تھا، جہاں عدالت نے جسمانی ریمانڈ میں 7 روز کی توسیع کی تھی اور 25 ستمبر کو انہیں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

بعد ازاں جب 25 ستمبر کو مریم نواز کو پیش کیا گیا تھا تو ان کے جوڈیشل ریمانڈ میں توسیع کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا تھا۔

مریم نواز کے عدالت ریمانڈ میں بھی کئی مرتبہ توسیع ہوچکی ہے اور آخری مرتبہ جب 25 اکتوبر کو انہیں عدالت میں پیش کیا گیا تھا تو 8 نومبر تک ان کے عدالتی ریمانڈ میں توسیع کی گئی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024