آرٹیکل 370 کی منسوخی، مقبوضہ کشمیر آج دو حصوں میں تقسیم ہوجائے گا
نئی دہلی: بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت (آرٹیکل 370) کے خاتمے کے متنازع اقدام کے بعد آج ( جمعرات کو) مقبوضہ وادی کو باضابطہ طور پر 2 وفاقی اکائیوں میں تقسیم کردے گی۔
ڈان اخبار میں شائع برطانوی خبررساں ادارے ' رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت موجود ہے جبکہ لداخ میں بدھ مت کے ماننے والے بھی ہیں۔
نئے معاہدے کے تحت جموں و کشمیر ایک کروڑ 22 لاکھ افراد پر مشتمل ایک علیحدہ اور لداخ 3 لاکھ افراد پر مشتمل دوسری اکائی کہلائے گا اور دونوں اکائیاں براہ راست نئی دہلی میں موجود وفاقی حکومت کے زیرِ انتظام ہوں گی۔
مزید پڑھیں: بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی، صدارتی فرمان جاری
خیال رہے کہ بھارت کے زیر تسلط کشمیر دنیا کا سب سے زیادہ جنگ زدہ خطہ ہے، جہاں کشمیری دہائیوں سے بھارتی قبضے کے خلاف تحریک چلا رہے ہیں۔
کشمیر دنیا کے خطرناک ترین علاقوں میں سے ایک ہے کیونکہ جوہری ہتھیار یافتہ دو پڑوسی ممالک پاکستان اور بھارت دونوں ہی اسے اپنا حصہ مانتے ہیں۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ایک عرصے سے مقبوضہ جموں و کشمیر کو آئین کے تحت دی گئی اس خصوصی حیثیت، ایک جھنڈا اور اپنے قوانین بنانے کا حق واپس لینا چاہتے تھے، جو بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت مقبوضہ کشمیر کو دی گئی تھی۔
مقبوضہ کشمیر کو تقسیم کرنے کے بعد کیا ہوگا؟
بعد ازاں 5 اگست 2019 کو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت نے 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت (آرٹیکل 370 ) کو ختم کردیا اور جموں کشمیر کی تنظیمِ نو سے متعلق نیا قانون منظور کرلیا تھا۔
بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے ساتھ ہی ہزاروں افراد کو قید کرکے، ان کی نقل و حرکت پر پابندیاں عائد کرکے خطے کو لاک ڈاؤن کردیا تھا اور ساتھ ہی مواصلاتی روابط بھی معطل کردیے تھے۔
آج (31 اکتوبر) کو بھارتی حکومت ایک کروڑ 25 لاکھ افراد پر مشتمل ریاست مقبوضہ جموں و کشمیر کو 2 وفاقی اکائیوں میں تقسیم کردے گی، جموں و کشمیر کو الگ اور لداخ کو الگ اکائی بنایا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت: مقبوضہ کشمیر کو 2 حصوں میں تقسیم کرنے کا بل لوک سبھا سے منظور
مقبوضہ جموں و کشمیر کی نئی وفاقی اکائی کی ایک منتخب قانون ساز اسمبلی ہوگی، جس کی مدت 5 برس ہوگی، اس کی سربراہی بھارت کی جانب سے مقرر کیے گئے لیفٹیننٹ گورنر کریں گے لیکن زیادہ اختیارات نئی دہلی کے پاس موجود ہوں گے۔
دوسری جانب لداخ وفاقی حکومت کے براہ راست زیر انتظام ہوگا جہاں کوئی اسمبلی نہیں ہوگی اور اسے ایک لیفٹیننٹ گورنر کے ذریعے چلایا جائے گا۔
لداخ کا علاقہ ثقافتی، مذہبی اور قومیت کے لحاظ سے مقبوضہ کشمیر سے مختلف ہے جہاں کی اکثریت ایک طویل عرصے سے اپنی سرزمین کو ایک علیحدہ وفاقی اکائی کے طور پر تسلیم کروانا چاہتی ہے۔
علاوہ ازیں کارگل سمیت لداخ کے 2 اضلاع کو پہلے ہی 'ہل کونسل' کے ذریعے چلایا جارہا تھا، جس کے تحت ان علاقوں کو ریاست مقبوضہ جموں و کشمیر سے زیادہ خود مختاری حاصل تھی۔
بھارتی حکومت آج لداخ کو علیحدہ کردے گی جہاں کچھ افراد کو امید ہے کہ اب اس دور دراز علاقے میں ترقی آئے گی۔
مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں 144 کم عمر لڑکے گرفتار
دوسری جانب بھارتی حکومت نے رواں ماہ کہا تھا کہ وہ لداخ میں واقع سیاچن گلیشیئر کے کچھ حصوں کو سیاحوں کے لیے کھولے گی۔
وفاقی اکائیوں میں تقسیم ہونے کے بعد بھارتی لوک سبھا میں مقبوضہ جموں و کشمیر کے 5 نمائندے ہوں گے جبکہ لداخ کا ایک نمائندہ نئی دہلی میں موجود پارلیمنٹ میں ہوگا۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم
واضح رہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں کی تعداد میں اضافی فوج بھیج کر لاک ڈاؤن اور کرفیو نافذ کرنے کے علاوہ خطے کی اہم سیاسی شخصیات کو قید کرنے کے بعد 5 اگست کو وادی کی خصوصی حیثیت (آرٹیکل 370 ) کو ختم کرکے اسے 2 اکائیوں میں تقسیم کردیا تھا۔
آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے دعویٰ کیا تھا کہ اس غیر معمولی اقدام کا مقصد مقبوضہ وادی کو ’ایک مرتبہ پھر جنت نظیر‘ بنانا ہے۔
تاہم کشمیری عوام بھارتی حکومت کے اس اقدام سے برہم ہیں جس کے باعث روزانہ احتجاجی مظاہرے جاری ہیں، تاجر اپنے کاروبار کھولنے سے گریزاں جبکہ بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں سیاہ رات کی کہانی: 'تاریک کمرے میں بجلی کے جھٹکے لگائے گئے'
یاد رہے کہ 5 اگست کے بعد سے مقبوضہ کشمیر میں 4 ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے، جس میں 144 کم عمر لڑکے بھی شامل ہیں جبکہ ایک ہزار افراد اب بھی زیرِ حراست ہیں جس میں کچھ کو اس قانون کے تحت رکھا گیا ہے جو مشتبہ شخص کو بغیر کسی الزام کے 2 ماہ قید میں رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔
اس کے علاوہ بھارتی سیکیورٹی فورسز فائرنگ کے واقعات میں متعدد کشمیریوں کو شہید کرچکی ہیں جبکہ پولیس ہتھیاروں کی برآمدگی کا دعویٰ بھی کرتی نظر آئی۔
بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ وادی میں سخت اقدامات کرنے کے 2 ماہ بعد وہاں کے ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے مواصلات اور انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے کئی جانیں جاچکی ہیں۔