• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

چوہدری شوگر ملز کیس: خاتون ہونے کی بنیاد پر مریم نواز کی ضمانت ہونی چاہیے، وکیل

شائع October 30, 2019
مریم نواز چوہدری شوگر ملز کیس میں گرفتار ہیں—فائل فوٹو: اے پی
مریم نواز چوہدری شوگر ملز کیس میں گرفتار ہیں—فائل فوٹو: اے پی

لاہور ہائی کورٹ میں مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کی چوہدری شوگر ملز کیس میں درخواست ضمانت پر سماعت کے دوران وکیل نے موقف اختیار کیا ہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) نے ان کی موکلہ پر کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز کا جھوٹا الزام لگایا، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ مریم نواز ایک خاتون ہیں، اس بنیاد پر بھی ان کی ضمانت ہونی چاہیے۔

صوبائی دارالحکومت لاہور کی عدالت عالیہ میں جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے مریم نواز کی درخواست ضمانت پر سماعت کی، اس دوران نیب کی جانب سے وکیل جہانزیب بھروانہ اور مریم نواز کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز پر جسٹس علی باقر نجفی نے استفسار کیا کہ مریم نواز کے خلاف کیا الزامات ہیں؟ اس پر مریم نواز کے وکیل نے جواب دیا کہ نیب نے مریم نواز کو اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت کارروائی کرتے ہوئے گرفتار کیا۔

اس دوران مریم نواز کے وکیل نے کہا کہ نیب نے الزام لگایا کہ ان کی موکلہ مریم نواز نے نواز شریف کے ساتھ مل کر منی لانڈرنگ کی، ساتھ ہی یہ الزام لگایا کہ مریم نواز کے اثاثے ان کی آمدن سے مطابقت نہیں رکھتے۔

مزید پڑھیں: احتساب عدالت: چوہدری شوگر ملز کیس میں مریم نواز کے عدالتی ریمانڈ میں توسیع

جس پر عدالت نے پوچھا کہ مریم نواز کو کب گرفتار کیا گیا، اس پر وکیل نے بتایا کہ مریم نواز کو 8 اگست کو کوٹ لکھپت جیل سے گرفتار کیا گیا اور ریمانڈ کے لیے 9 اگست کو پیش کیا گیا۔

وکیل نے مزید کہا کہ چوہدری شوگر مل کو میاں شریف نے بنایا تھا، چوہدری شوگر مل کو ایس ای سی پی ریگولیٹ کرتا ہے، اگر کوئی شکایات تھیں تو ایس ای سی پی کارروائی کا اختیارات رکھتا تھا۔

سماعت کے دوران مریم نواز کے وکیل نے دلائل کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 5 اگست 1991 میاں شریف نے شوگر مل قائم کی، جس میں خاندان کے تمام افراد شیئر ہولڈر تھے، میاں شریف کی زندگی میں تمام اہل خانہ ان کے زیرسایہ رہے، میاں شریف کے پاس خصوصی اختیارات تھے کہ وہ جس کو جتنے مرضی شیئر دیتے۔

انہوں نے بتایا کہ 1999 میں نواز شریف شیئر ہولڈر نہیں تھے جبکہ مریم نواز کو چوہدری شوگر کیس کے معاملات کے بارے میں بالکل نہیں معلوم، مریم نواز کو اگر کبھی سی ای او بنایا گیا تو وہ صرف کاغذوں کی حد تک بنایا گیا تھا، میاں شریف کے بعد شیئرز عباس شریف دیکھتے تھے جو 2013 میں فوت ہو گئے۔

اس پرجج نے پوچھا کہ آپ کہتے ہیں کہ مریم نواز نے چوہدری شوگر ملز سے فوائد حاصل نہیں کیے، جس پر وکیل نے کہا کہ جی یہی ہمارا کیس ہے۔

عدالت میں دلائل دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 25 ستمبر کو ٹرائل کورٹ نے مریم نواز کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کردی تھی۔

ساتھ ہی مریم نواز کے وکیل نے پاناما کیس کے فیصلے کا آپریٹو پارٹ پڑھ کر سنایا، 10 جولائی 2017 کو جے آئی ٹی نے تمام تحقیقات کر کے رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی، اس جے آئی ٹی میں نیب، ایف آئی اے، ایس ای سی پی کے نمائندے بھی شامل تھے۔

امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں دوسری کمپنی چوہدری شوگر ملز کی تحقیقات کی گئیں، اس کے علاوہ حدیبیہ پیپر ملز کی تحقیقات بھی کی گئیں جبکہ مریم نواز کے بارے میں الگ الگ والیم جمع کروائے تھے۔

اس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ نے اس جے آئی ٹی رپورٹ کو کیس کا حصہ بنایا؟ کیا اس بنیاد پر فیصلہ دیا گیا؟ جس پر وکیل امجد پرویز نے بتایا کہ جی، اس جے آئی ٹی رپورٹ کو کیس کا حصہ بنایا گیا اور اسی بنیاد پر ریفرنسز دائر کرنے کا حکم دیا گیا، تاہم انہوں نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے حکم میں چوہدری شوگر ملز کا ریفرنس دائر کرنے کا نہیں کہا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: مریم نواز کی اپنے والد سے ہسپتال میں ملنے کی درخواست مسترد

مریم نواز کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ایک سو 16 کروڑ 50 لاکھ روپے مریم نواز کو والد سے تحفے میں ملے تھے جبکہ ان کی موکلہ نے 1991 سے ٹیکس ریٹرن فائل کرنا شروع کی، ساتھ ہی امجد پرویز نے جے آئی ٹی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 1991 میں مریم نواز طالب علم تھیں۔

امجد پرویز ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں مریم نواز پر آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کا کہا گیا جبکہ ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز کو نامزد کیا گیا تھا، مریم نواز کے 2017 تک کے تمام اثاثے پاناما جے آئی ٹی کو بتائے گئے۔

مریم نواز کے وکیل کا کہنا تھا کہ فوجداری مقدمات کی تاریخ میں سب سے زیادہ مقدمات مریم نواز کے والد نواز شریف کے خلاف درج ہوئے، ساتھ ہی انہوں نے اپنی موکلہ کے بارے میں کہا کہ 23 جون 2016 سے مریم نواز کا چوہدری شوگر ملز سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی ان کے پاس کوئی عہدہ ہے۔

مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر کے وکیل کا کہنا تھا کہ ثبوتوں کی عدم دستیابی کے باوجود نیب نے مریم نواز کے خلاف کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز کا جھوٹا الزام لگایا، مریم نواز کے خلاف ریکارڈ پر کوئی ثبوت موجود نہیں، شمیم شوگر مل کے حوالے سے بھی تمام اثاثے ظاہر کیے گئے ہیں۔

اس موقع پر وکیل نے موقف اپنایا کہ مریم نواز ایک خاتون ہیں، اس بنیاد پر بھی ان کی ضمانت ہونی چاہیے۔

بعدازاں مریم نواز کی ضمانت پر رہائی کی درخواست پر ان کے وکیل نے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے نیب کے وکلا کو کل دلائل دینے کا حکم دے دیا۔

مریم نواز کی درخواست

خیال رہے کہ 24 اکتوبر کو مریم نواز نے چوہدری شوگر ملز کیس میں ضمانت کے لیے ایک اور متفرق درخواست دائر کی تھی، جس پر عدالت نے نیب سے جواب مانگا تھا۔

تاہم 25 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نیب جواب جمع نہیں کروا پایا تھا جس کے بعد عدالت نے مریم نواز کی درخواست ضمانت سے متعلق دونوں درخواستوں پر سماعت کو ملتوی کردیا تھا۔

اگلے روز نیب کی جانب جواب جمع کروایا گیا تھا، جس میں مریم نواز کی درخواست ضمانت کی مخالفت کی گئی تھی۔

واضح رہے کہ عدالت میں دائر درخواست میں مریم نواز نے موقف اختیار کیا تھا کہ وہ ملک کے 3 مرتبہ منتخب وزیراعظم کی بیٹی ہیں، نیب کی جانب سے ان پر جھوٹا کیس بنایا گیا ہے جبکہ نیب کمپنیز ایکٹ کے تحت کارروائی نہیں کرسکتا۔

مریم نواز نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ چوہدری شوگر ملز کیس میں ان کی ضمانت منظور کرکے رہائی کا حکم دیا جائے۔

چوہدری شوگر ملز کیس

خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت کے دوران جنوری 2018 میں مالی امور کی نگرانی کرنے والے شعبے نے منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت چوہدری شوگر ملز کی بھاری مشتبہ ٹرانزیکشنز کے حوالے سے نیب کو آگاہ کیا تھا۔

بعدازاں اکتوبر 2018 میں نیب کی تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی تھی کہ نواز شریف، مریم نواز، شہباز شریف اور ان کے بھائی عباس شریف کے اہلِ خانہ، ان کے علاوہ امریکا اور برطانیہ سے تعلق رکھنے والے کچھ غیر ملکی اس کمپنی میں شراکت دار ہیں۔

ذرائع نے بتایا تھا کہ چوہدری شوگر ملز میں سال 2001 سے 2017 کے درمیان غیر ملکیوں کے نام پر اربوں روپے کی بھاری سرمایہ کاری کی گئی اور انہیں لاکھوں روپے کے حصص دیے گئے۔

اس کے بعد وہی حصص متعدد مرتبہ مریم نواز، حسین نواز اور نواز شریف کو بغیر کسی ادائیگی کے واپس کیے گئے جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ کمپنی میں بھاری سرمایہ کاری کے لیے غیر ملکیوں کا نام اس لیے بطور پراکسی استعمال کیا گیا کیوں کہ شریف خاندان کی جانب سے سرمایہ کاری کے لیے استعمال کی جانے والی رقم قانونی نہیں تھی۔

مزید پڑھیں: چوہدری شوگر ملز کیس: مریم نواز کی درخواست پر نیب کا جواب جمع

جس پر 31 جولائی کو تفتیش کے لیے نیب کے طلب کرنے پر وہ پیش ہوئیں تھیں اور چوہدری شوگر ملز کی مشتبہ ٹرانزیکشنز کے سلسلے میں 45 منٹ تک نیب ٹیم کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کروایا تھا۔

رپورٹ کے مطابق یوسف عباس اور مریم نواز نے تحقیقات میں شمولیت اختیار کی تھی لیکن سرمایہ کاری کرنے والے غیر ملکیوں کو پہچاننے اور رقم کے ذرائع بتانے سے قاصر رہے اور مریم نواز نوٹس میں بھجوائے سوالوں کے علاوہ کسی سوال کا جواب نہیں دے سکی تھیں۔

جس پر نیب نے مریم نواز کو 8 اگست کو دوبارہ طلب کرتے ہوئے ان سے چوہدری شوگر ملز میں شراکت داری کی تفصیلات، غیر ملکیوں، اماراتی شہری سعید سید بن جبر السویدی، برطانوی شہری شیخ ذکاؤ الدین، سعودی شہری ہانی احمد جمجون اور اماراتی شہری نصیر عبداللہ لوتا سے متعلق مالیاتی امور کی تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت کی تھی۔

اس کے ساتھ مریم نواز سے بیرونِ ملک سے انہیں موصول اور بھیجی جانے والی ترسیلاتِ زر/ٹیلیگرافگ ٹرانسفر کی تفصیلات بھی طلب کی گئی تھیں۔

8 اگست کو ہی قومی احتساب بیورو نے چوہدری شوگر ملز کیس میں مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کو گرفتار کر کے نیب ہیڈکوارٹرز منتقل کر دیا تھا۔

جس کے بعد ان کے جسمانی ریمانڈ میں کئی مرتبہ توسیع کی گئی تھی، جس کے بعد عدالت نے انہیں 4 ستمبر کو مزید 14 روزہ ریمانڈ پر نیب کے حوالے کردیا تھا۔

18 ستمبر کو انہیں دوبارہ عدالت میں پیش کیا گیا تھا، جہاں عدالت نے جسمانی ریمانڈ میں 7 روز کی توسیع کی تھی اور 25 ستمبر کو انہیں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

بعد ازاں جب 25 ستمبر کو مریم نواز کو پیش کیا گیا تھا تو ان کے جوڈیشل ریمانڈ میں توسیع کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔

مریم نواز کے عدالت ریمانڈ میں بھی کئی مرتبہ توسیع ہوچکی ہے اور آخری مرتبہ جب 25 اکتوبر کو انہیں عدالت میں پیش کیا گیا تھا تو 8 نومبر تک ان کے عدالتی ریمانڈ میں توسیع کی گئی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024