• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

چوہدری شوگر ملز کیس: مریم نواز کی درخواست پر نیب کا جواب جمع

شائع October 28, 2019
مریم نواز چوہدری شوگر ملز کیس میں عدالتی ریمانڈ پر ہیں—فائل فوٹو: ڈان نیوز
مریم نواز چوہدری شوگر ملز کیس میں عدالتی ریمانڈ پر ہیں—فائل فوٹو: ڈان نیوز

لاہور ہائیکورٹ میں چوہدری شوگر ملز کیس میں مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کی ضمانت کی درخواست پر نیب نے جواب جمع کروادیا، جس پر مسلم لیگ (ن) کی رہنما کے وکیل نے جواب کیلئے کل تک کی مہلت مانگ لی۔

صوبائی دارالحکومت لاہور کی عدالت میں جسٹس علی باقر نجفی کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے مریم نواز کی درخواست پر سماعت کی۔

اس دوران نیب کے تفتیشی افسر اور وکیل عدالت میں پیش ہوئے جبکہ مریم نواز کی جانب سے ان کے وکیل نے ان کی نمائندگی کی۔

دوران سماعت عدالت کی جانب سے استفسار کیا گیا کہ ہم مریم نواز کے کیس سے پہلے کچھ سوالات کرنا چاہتے ہیں۔

مزید پڑھیں: احتساب عدالت: چوہدری شوگر ملز کیس میں مریم نواز کے عدالتی ریمانڈ میں توسیع

عدالت نے پوچھا کہ کیا مریم نواز اپنے والد نواز شریف سے ملاقات کر رہی ہیں؟ جس پر ان کے وکیل نے جواب دیا کہ جی مریم نواز کو اپنے والد نواز شریف سے ملاقات کی اجازت دی گئی ہے۔

اسی پر لاہور ہائی کورٹ کے جج نے پوچھا کہ کیا نیب نے درخواست پر جواب جمع کرادیا؟ جس پر نیب کی جانب سے مریم نواز کی درخواست پر جواب عدالت میں پیش کردیا گیا۔

نیب کی جانب سے جمع کروائے گئے جواب میں مریم نواز کی درخواست ضمانت کی مخالفت کی گئی۔

عدالت میں تحریری جواب میں نیب نے کہا کہ مریم نواز کے خلاف تحقیقات کا آغاز جنوری2018 میں مشکوک ٹرانزکشنز کی بنیاد پر کیا گیا، اس وقت مریم نواز کی پارٹی برسر اقتدار تھی۔

جواب میں کہا گیا کہ نیب مریم نواز، نوازشریف اور دیگر کے خلاف منی لانڈرنگ کی تحقیقات قانون کے مطابق کر رہا ہے، نیب بیورو کے قیام کا مقصد معاشرے سے کرپشن کا خاتمہ ہے، نیب ملزموں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کرتا ہے۔

تحریری جواب کے مطابق نیب آرڈینس کے تحت حکومت سے شکایت موصول ہونے پر تحقیقات کا آغاز کیا جاسکتا ہے، اسی آرڈیننس کے ذریعے چیئرمین نیب کو کرپشن پر تحقیقات کا مکمل اختیارحاصل ہے۔

عدالت میں جمع کروائے گئے جواب میں کہا گیا کہ کرپشن کے خاتمے اور لوٹی ہوئی رقم کی وصولی کے لیے نیب کے قانون کو برتری حاصل ہے۔

نیب کے جواب کے مطابق لاہو، کمپنیز ایکٹ اور ایس ای سی پی ایکٹ کی پالیسی اور مقاصد نیب آرڈینس سے بالکل مختلف ہیں، نیب آرڈینس کی دفعہ 9سے ایس ای سی پی اور کمپنیز ایکٹ کا کوئی تعلق نہیں۔

عدالت میں جمع جواب میں کہا گیا کہ نیب آرڈینس کی دفعہ 9 خصوصی طور پر کرپشن پر لاگو ہوتی ہے، لہٰذا میرٹ کی بنیاد پر مریم نواز کی درخواست ضمانت مسترد کی جائے۔

اس پر مریم نواز کے وکیل نے کہا کہ ان کی موکلہ عدالتی ریمانڈ پر ہیں، اسی بنیاد پر درخواست ضمانت دائر ہوچکی ہے، جس پر جسٹس باقر نجفی نے کہا کہ اگر آپ تیار کرنا چاہتے ہیں تو بتائیں، اگر تیاری مکمل ہے تو آج ہی کیس سن لیتے ہیں۔

جس پر مریم نواز کے وکیل نے کہا کہ نیب کا جواب ہمیں مل گیا ہے، کل تک ہم تیاری کر لیتے ہیں، اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ فریقین کے وکلا کل تک تیاری کے ساتھ پیش ہوں، بعد ازاں مذکورہ کیس کی سماعت کل (29 اکتوبر) تک ملتوی کردی گئی۔

مریم نواز کی درخواست

خیال رہے کہ 24 اکتوبر کو مریم نواز نے چوہدری شوگر ملز کیس میں ضمانت کے لیے ایک اور متفرق درخواست دائر کی تھی، جس پر عدالت نے نیب سے جواب مانگا تھا۔

تاہم 25 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نیب جواب جمع نہیں کروا پایا تھا جس کے بعد عدالت نے مریم نواز کی درخواست ضمانت سے متعلق دونوں درخواستوں پر سماعت کو آج تک ملتوی کیا تھا۔

واضح رہے کہ عدالت میں دائر درخواست میں مریم نواز نے موقف اختیار کیا تھا کہ وہ ملک کے 3 مرتبہ منتخب وزیراعظم کی بیٹی ہیں، نیب کی جانب سے ان پر جھوٹا کیس بنایا گیا ہے جبکہ نیب کمپنیز ایکٹ کے تحت کارروائی نہیں کرسکتا۔

مریم نواز نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ چوہدری شوگر ملز کیس میں ان کی ضمانت منظور کرکے رہائی کا حکم دیا جائے۔

چوہدری شوگر ملز کیس

خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت کے دوران جنوری 2018 میں مالی امور کی نگرانی کرنے والے شعبے نے منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت چوہدری شوگر ملز کی بھاری مشتبہ ٹرانزیکشنز کے حوالے سے نیب کو آگاہ کیا تھا۔

بعدازاں اکتوبر 2018 میں نیب کی تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی تھی کہ نواز شریف، مریم نواز، شہباز شریف اور ان کے بھائی عباس شریف کے اہلِ خانہ، ان کے علاوہ امریکا اور برطانیہ سے تعلق رکھنے والے کچھ غیر ملکی اس کمپنی میں شراکت دار ہیں۔

ذرائع نے بتایا تھا کہ چوہدری شوگر ملز میں سال 2001 سے 2017 کے درمیان غیر ملکیوں کے نام پر اربوں روپے کی بھاری سرمایہ کاری کی گئی اور انہیں لاکھوں روپے کے حصص دیے گئے۔

اس کے بعد وہی حصص متعدد مرتبہ مریم نواز، حسین نواز اور نواز شریف کو بغیر کسی ادائیگی کے واپس کیے گئے جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ کمپنی میں بھاری سرمایہ کاری کے لیے غیر ملکیوں کا نام اس لیے بطور پراکسی استعمال کیا گیا کیوں کہ شریف خاندان کی جانب سے سرمایہ کاری کے لیے استعمال کی جانے والی رقم قانونی نہیں تھی۔

جس پر 31 جولائی کو تفتیش کے لیے نیب کے طلب کرنے پر وہ پیش ہوئیں تھیں اور چوہدری شوگر ملز کی مشتبہ ٹرانزیکشنز کے سلسلے میں 45 منٹ تک نیب ٹیم کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کروایا تھا۔

رپورٹ کے مطابق یوسف عباس اور مریم نواز نے تحقیقات میں شمولیت اختیار کی تھی لیکن سرمایہ کاری کرنے والے غیر ملکیوں کو پہچاننے اور رقم کے ذرائع بتانے سے قاصر رہے اور مریم نواز نوٹس میں بھجوائے سوالوں کے علاوہ کسی سوال کا جواب نہیں دے سکی تھیں۔

جس پر نیب نے مریم نواز کو 8 اگست کو دوبارہ طلب کرتے ہوئے ان سے چوہدری شوگر ملز میں شراکت داری کی تفصیلات، غیر ملکیوں، اماراتی شہری سعید سید بن جبر السویدی، برطانوی شہری شیخ ذکاؤ الدین، سعودی شہری ہانی احمد جمجون اور اماراتی شہری نصیر عبداللہ لوتا سے متعلق مالیاتی امور کی تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: چوہدری شوگر ملز کیس: نواز شریف کی رہائی کی روبکار جاری

اس کے ساتھ مریم نواز سے بیرونِ ملک سے انہیں موصول اور بھیجی جانے والی ترسیلاتِ زر/ٹیلیگرافگ ٹرانسفر کی تفصیلات بھی طلب کی گئی تھیں۔

8 اگست کو ہی قومی احتساب بیورو نے چوہدری شوگر ملز کیس میں مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کو گرفتار کر کے نیب ہیڈکوارٹرز منتقل کر دیا تھا۔

جس کے بعد ان کے جسمانی ریمانڈ میں کئی مرتبہ توسیع کی گئی تھی، جس کے بعد عدالت نے انہیں 4 ستمبر کو مزید 14 روزہ ریمانڈ پر نیب کے حوالے کردیا تھا۔

18 ستمبر کو انہیں دوبارہ عدالت میں پیش کیا گیا تھا، جہاں عدالت نے جسمانی ریمانڈ میں 7 روز کی توسیع کی تھی اور 25 ستمبر کو انہیں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

بعد ازاں جب 25 ستمبر کو مریم نواز کو پیش کیا گیا تھا تو ان کے جوڈیشل ریمانڈ میں توسیع کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا۔

مریم نواز کے عدالت ریمانڈ میں بھی کئی مرتبہ توسیع ہوچکی ہے اور آخری مرتبہ جب 25 اکتوبر کو انہیں عدالت میں پیش کیا گیا تھا تو 8 نومبر تک ان کے عدالتی ریمانڈ میں توسیع کی گئی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024