چلی میں 10 لاکھ سے زائد افراد کا حکومت مخالف احتجاج، کابینہ برطرف
چلی میں حکومتی اقدامات کے خلاف 10 لاکھ سے زائد افراد کے شدید احتجاج کے بعد صدر سباسٹین پنیرا نے اہم اقدامات اٹھاتے ہوئے کابینہ کو برطرف کرنے کا اعلان کر دیا۔
غیر ملکی خبر ایجنسی 'رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق چلی کے صدر سباسٹین پنیرا نے کابینہ کی برطرفی کا اعلان گزشتہ روز لاکھوں افراد کے پرامن احتجاج کے بعد کیا جن کا مطالبہ تھا کہ ملک کے معاشی نظام میں اصلاحات کی جائیں۔
چلی کے صدر نے کہا کہ ‘تمام وزرا کو نوٹس بھیج دیا ہے کہ کابینہ کو ازسرنو ترتیب دیا جائے تاکہ نئے مطالبات کو پورا کیا جائے’۔
جنوبی امریکی ملک میں حکومت کے عدم مساوات کے نظام کے خلاف احتجاج ایک ہفتے سے جاری ہے جو کرایوں میں اضافے پر شروع ہوا تھا۔
مظاہروں کے دوران پرتشدد واقعات بھی پیش آئے جس کے نتیجے میں کم ازکم 17 افراد ہلاک جبکہ 7 ہزار سے زائد افراد کر گرفتار کیا گیا اور ملک کے کاروبار میں 14 لاکھ ڈالر سے زائد کا نقصان بھی ہوا۔
چلی کے صدر نے ہفتے کے آغاز میں ملک بھر میں ایمرجنسی نافذ کردی تھی اور اہم شہروں میں سیکیورٹی کے لیے فوج کو تعینات کردیا تھا۔
مظاہرین کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ملک اس وقت ‘وحشیوں کے خلاف حالت جنگ میں ہے’۔
صدر کے ان الفاظ کے بعد حالات مزید خراب ہوئے اور شہریوں کی اکثریت کا کہنا تھا کہ صدر کے ان الفاظ اور کارروائیوں نے ملک کو آمر آگسٹو پنوشے کی فوجی حکمرانی کے دور کی طرف دھکیل دیا ہے۔
بعد ازاں صدر نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اتوار کی شام تک ایمرجنسی اٹھا لیں گے کیونکہ اس کی آڑ میں جرائم اور لوٹ مار شروع ہوچکی ہے۔
سباسٹین پنیرا نے رواں ہفتے ہی مطالبہ کیا کہ ‘ایک نیا عمرانی معاہدہ کیا جائے جس کے تحت اجرت اور پینشن میں اضافہ کیا جائے گا، عوامی ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافے کو کم اور ملک کے صحت کے ناقص نظام کو درست کیا جائے گا’۔
دوسری جانب چلی کی فوج نے اپنے بیان میں کہا کہ ‘شہر میں حالات معمول کی جانب گامزن ہیں جس کے لیے تعاون پر تمام شہریوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور فوجی کرفیو بھی جلد ہی ہٹادیا جائے گا’۔