• KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
  • KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm

العزیزیہ ریفرنس: اسلام آباد ہائیکورٹ نے نواز شریف کی عبوری ضمانت منظور کرلی

شائع October 26, 2019 اپ ڈیٹ October 27, 2019
سابق وزیر اعظم  کو العزیزیہ ریفرنس کیس میں ضمانت نہ ملنے کےسبب رہا نہیں کیا جاسکا تھا—فائل فوٹو: ٹوئٹر
سابق وزیر اعظم کو العزیزیہ ریفرنس کیس میں ضمانت نہ ملنے کےسبب رہا نہیں کیا جاسکا تھا—فائل فوٹو: ٹوئٹر

اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی طبی بنیادوں پر منگل تک کی عبوری ضمانت منظور کر لی۔

وفاقی دارالحکومت کی عدالت عالیہ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی سزا معطلی کے لیے دائر درخواست کی سماعت کی، اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق چھٹی پر ہونے کے باعث اس بینچ کا حصہ نہیں تھے۔

یہاں یہ بات واضح رہے کہ شہباز شریف نے 24 اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں نواز شریف کی سزا معطلی کی درخواست دائر کی تھی اور استدعا کی تھی کہ اپیل پر فیصلہ ہونے تک طبی بنیادوں پر نواز شریف کو ضمانت پر رہا کیا جائے۔

مزید پڑھیں:نوازشریف کو ضمانت نہیں مل سکتی،طبی بنیاد پر معاملہ دیکھ رہے ہیں، ہائیکورٹ

اسی درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ نواز شریف کو ان کی مرضی کے مطابق پاکستان میں یا بیرونِ ملک علاج کروانے کی اجازت دی جائے، ساتھ ہی درخواست میں چیئرمین اور ڈائریکٹر جنرل نیب کو فریق بنایا گیا جبکہ اس کے ساتھ نواز شریف کی میڈیکل ہسٹری بھی فراہم کی گئی تھی۔

اس معاملے پر گزشتہ روز بھی سماعت ہوئی تھی اور مزید سماعت 29 اکتوبر (منگل) تک ملتوی کردی گئی تھی۔

تاہم سابق وزیر اعظم نواز شریف کی بگڑتی صحت کو دیکھتے ہوئے شہباز شریف نے اپنے وکیل خواجہ حارث کے توسط سے سزا معطلی کی سماعت آج (ہفتے) کو ہی کرنے کی ایک متفرق درخواست دائر کردی تھی۔

سماعت کے لیے دائر کی گئی درخواست کے ساتھ نواز شریف کی تمام بیماریوں کی تفیصلات اور ان کی میڈیکل رپورٹس بھی منسلک کی گئی تھیں، جس کو دیکھتے ہوئے عدالت نے اس معاملے کو آج ہی سماعت کے لیے مقرر کیا۔

عدالت عالیہ میں سماعت

آج ہونے والی سماعت کے دوران نواز شریف کی نمائندگی کرنے والے وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ 'نواز شریف کو گزشتہ رات معمولی ہارٹ اٹیک ہوا، کل کے بعد سے ان کی طبیعت مزید خراب ہوئی ہے اور نواز شریف کی جان کو خطرہ ہے‘۔

سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے پوچھا کہ کل جو میڈیکل رپورٹ جمع کروائی اس کے بعد طبیعت کی صورتحال کیا ہے کہ درخواست دائر کرنی پڑی، کل میڈیکل رپورٹ کھولی گئی، پڑھی گئی، آج کی نوبت کیوں آئی۔

اس موقع پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ اگر طبیعت انتہائی تشویش ناک ہے تو اس بارے میں آگاہ کیجیے۔ انہوں نے کہا کہ جو رپورٹ کل پیش کی گئی اس کے علاوہ اگر کوئی رپورٹ ہے جس میں ان کی طبیعت کی صورتحال بیان کی گئی ہو تو بتائیے۔

اس پر وکیل صفائی نے بتایا کہ کل جو رپورٹ پیش کی گئی وہ 24 اکتوبر کی تھی، رپورٹ میں بتایا گیا کہ نواز شریف کو معمولی نوعیت کا ہارٹ اٹیک ہوا۔

وکلا کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کی نقل عدالت میں پیش کی گئی، جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا فریقین نے مخالفت کی، جس پر وکیل نے بتایا کہ زیادہ مخالفت نہیں کی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ڈویژن بینچ نے اس معاملے کو منگل کے لیے رکھا ہے، تاہم انہوں نے کہا کہ سزا یافتہ قیدی کی طبیعت اگر ناساز ہے تو صوبائی حکومت کو اختیار ہے کہ وہ سزا معطل کرسکتی ہے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ ایسی صورت میں معاملہ عدالت میں نہیں آنا چاہیے، فریقین اور پنجاب حکومت کو بلا کر پوچھ لیتے ہیں۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ میڈیکل بورڈ کی رپورٹ میں بھی تحریر ہے کہ نواز شریف کی طبیعت تشویش ناک ہے۔

علاوہ ازیں عدالت نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ رجسٹرار آفس نے بتایا کہ ٹی وی چینلز پر ڈیل سے متعلق خبریں نشر کی گئیں۔

اس پر عدالت نے متعلقہ چینلز اور اینکرز کو توہین عدالت کے نوٹسز جاری کردیے۔

عدالت عالیہ نے چیئرمین پیمرا، 2 ٹی وی پروگرامز ’بریکنگ نیوز ود مالک‘ اور اینکر سمیع ابراہیم کو نوٹس جاری کیے، ساتھ ہی پروگرام میں شرکت کرنے والے عامر متین، کاشف عباسی اور حامد میر کو بھی نوٹس جاری کردیے گئے۔

ساتھ ہی عدالت نے وزیراعظم پاکستان، وزیر اعلیٰ پنجاب اور چیئرمین نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ آج ہی کوئی نمائندہ مقرر کرکے 4 بجے تک عدالت بھجوائیں۔

بعد ازاں 4 بجے کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ اینکر پرسنز عدالت آئے ہوئے ہیں، روسٹرم پر آجائیں، جس پر تمام اینکرز پیش ہوئے۔

اس دوران جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آپ تمام اینکر ہمارے لیے قابل احترام ہیں، بڑی معذرت سے آپ کو بلایا ہے، عدالت نے بہت تحمل کا مظاہرہ کیا، جب ڈیل کی باتیں ہوتی ہیں تو بات عدلیہ پر آتی ہے۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ کیس بعد میں عدالت میں آتا ہے اور میڈیا ٹرائل پہلے ہوجاتا ہے، جس کا دباؤ عدالت پر آتا ہے، ججز سے متعلق بھی سوشل میڈیا پر ان کا ٹرائل شروع ہو جاتا ہے۔

عدالت عالیہ کے چیف جسٹس نے کہا کہ سمیع ابراہیم نے وثوق سے کہا کہ ڈیل ہو گئی ہے، ہمیں ابھی یہ بھی نہیں معلوم کہ آج کی سماعت کا کیا آرڈر ہوگا ساتھ ہی انہوں نے پوچھا کہ کیا وزیراعظم اور عدلیہ اس ڈیل کا حصہ ہیں؟

انہوں نے ریمارکس دیے کہ ہائی کورٹ کے کسی جج تک رسائی نہیں، ایسی باتیں انہیں متنازع بناتی ہیں، آپ اس حوالے سے جواب جمع کرا دیں۔

چیئرمین پیمرا کی جانب سے ان کے نمائندے عدالت میں پیش ہوئے، جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ آپ روز پروگرام دیکھتے ہیں؟ انجوائے کرتے ہوں گے کہ عدلیہ پر کیچڑ اچھالا جا رہا ہے، ریڑھی والے کی زبان ٹی وی پر استعمال ہو رہی ہوتی ہے، قرآن پڑھا ہے؟ اس میں حکم ہے کہ سنی سنائی بات آگے نہ پھیلانے دیں۔

ساتھ ہی چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آپ عسکری اداروں اور منتخب وزیراعظم کو بھی بدنام ہونے دے رہے ہیں۔

اسی دوران اینکر محمد مالک نےکہا کہ میڈیا نے اس ملک کو تباہ نہیں کیا، جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ یہ بات پیمرا کے بارے میں کی جا رہی ہے۔

ساتھ ہی چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ اس ملک کی تباہی میں ہر ایک کا کردار ہے، آپ بتائیں کہ کیا پیمرا اپنی ذمہ داریاں بخوبی سرانجام دے رہا ہے؟

اس موقع پر صحافی حامد میر نے بتایا کہ 'مجھے نامعلوم نمبر سے کال آئی تھی کہ آپ کو بلایا گیا ہے'، میں نے پروگرام میں ڈیل کی کوئی بات ہی نہیں کی، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں آپ کو ذاتی طور پر جانتا ہوں، آپ نے وکلا تحریک میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

سماعت کے دوران ہی اینکر عامر متین نے بتایا کہ میڈیا کی خرابی کی بات کرنے کے بجائے واضح بات کرنی چاہئے کہ کس نے کیا غلط بات کی، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت سیاسی معاملات میں الجھنا نہیں چاہتی، سیاست دانوں کے کیسز پر قانون کے مطابق کارروائی ہوتی ہے۔

اس موقع پر سیکریٹری داخلہ اور ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر روسٹرم پر آئے، جس کے بعد چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ کیا سیکریٹری داخلہ درخواست ضمانت کی مخالفت کرتے ہیں؟ آپ لوگوں کو میڈیکل بورڈ کی رپورٹس موصول ہو رہی ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا یہ عدالتی فیصلہ آپ کے سامنے رکھا گیا؟ ساتھ ہی عدالت نے انہیں 'پریزن رولز' پڑھنے کی ہدایت کردی۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ طبی بنیادوں پر ضمانت کا کیس عدالت میں آنا ہی نہیں چاہیے، طبی بنیادوں پر ضمانت کا اختیار حکومت کا ہے۔

دوران سماعت عدالت عالیہ نے پنجاب حکومت کے نمائندے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب حکومت نے جیل میں تمام بیمار قیدیوں کا معلوم کیا؟ آپ نے میڈیکل بورڈ مقرر کیا جس نے کہا کہ نواز شریف کی حالت تشویشناک ہے، میڈیکل بورڈ نے کہا کہ بیماری جان لیوا ہے۔

ساتھ ہی عدالت نے نیب کی نمائندگی کرنے والے پراسیکیوٹر جنرل کو ہدایت کی کہ وہ آدھے گھنٹے میں چیئرمین نیب سے پوچھ کر بتائیں کہ وہ ضمانت کی مخالفت کریں گے یا بیان حلفی جمع کروائیں گے۔

بعد ازاں مختصر وقفے کے بعد کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو عدالت عالیہ کے چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر حکومت درخواست ضمانت کی مخالفت کرے گی تو ہم ضمانت مسترد کردیں گے لیکن اس دوران نواز شریف کو اگر کچھ ہوا تو ذمہ دار نیب اور حکومت ہوگی۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ حکومتی وزرا تمام ذمہ داری عدالتوں پر ڈالنے کے بیان دے رہے ہیں۔

ساتھ ہی عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ صرف ہاں یا نا میں جواب دیں، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اس تمام معاملے میں وفاقی حکومت کا کوئی کردار نہیں ہے۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ جذباتی نہ ہوں، صرف مخالفت کریں اور ذمہ داری لیں یا مخالفت نہ کریں۔

چیف جسٹس ہائی کورٹ نے پوچھا کہ کیا آپ ضمانت کی مخالفت کرتے ہیں؟جس پر سیکریٹری داخلہ نے کہا کہ اس وقت ہم کوئی بیان نہیں دے سکتے جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ تمام ذمہ داری عدالت کے کندھوں پر نہ ڈالیں، اگر آپ مطمئن ہیں کہ منگل تک نواز شریف کو کچھ نہیں ہو گا تو پھر ذمہ داری لیں۔

اس پر سیکریٹری داخلہ نے کہا کہ ہم کوئی ذمہ داری نہیں لے سکتے، آپ درخواست کا میرٹ پر فیصلہ کردیں، جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ملک بھر کے تمام شہریوں کی ذمہ داری ریاست کی ہے، آپ کہہ رہے ہیں کہ ریاست اور صوبائی حکومت ناکام ہوچکی ہے۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کے کسی آدمی نے حکومتی ترجمان کو عدالتی فیصلے نہیں دیے کہ وہ اس کو پڑھ کر بیانات دیں، آپ قانون کے مطابق اپنی ذمہ داریاں پوری کیوں نہیں کر رہے۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ قانون پر عمل درآمد خالصتاً پنجاب حکومت کی ذمہ داری تھی، ساتھ ہی جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ایسا کوئی قیدی جس کی جان کو خطرہ ہے اس کا کیس صوبائی حکومت خود آگے بڑھا کر مچلکوں پر ضمانت دے سکتی ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ نیب کی سزا تو 14 سال قید تک ہوتی ہے مگر سزائے موت کے قیدیوں کو بھی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ضمانت دی جا سکتی ہے۔

اس دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اگر آپ تینوں بیان حلفی نہیں دے رہے تو پھر یقیناً کہیں کچھ غلط ضرور ہے، جس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب قاسم چوہان نے کہ ہم ابھی ہاں یا نا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں بلکہ 'ہوسکتا ہے' (may be zone) میں ہیں۔

اس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ یہ عدالت کوئی ذمہ داری نہیں لے گی، ہم کوئی دلائل نہیں سنے گے، پہلے کوئی بندہ ذمہ داری لے پنجاب حکومت ذمہ داری نہیں لے رہی،جس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب سے رابطہ کرنے کی اجازت دی جائے، جس پر کیس کی سماعت میں دوبارہ آدھے گھنٹے کا وقفہ کردیا گیا۔

وقفے کے بعد ایک بار پھر سماعت شروع ہوئی تو عدالت نے کہا کہ ہم وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کو ہدایات جاری کر رہے ہیں جبکہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار، وزیر اعظم عمران خان اور چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال اس معاملے پر فیصلہ کریں۔

اس موقع پر ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب نے کہا کہ انسانی بنیادوں پر ہمیں نواز شریف کی ضمانت کی درخواست پر کوئی اعتراض نہیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے پہلے آپ سے کہا کہ عدالت کے ساتھ فیئر رہیں۔

عدالت نے حکم دیا کہ وفاقی حکومت تمام صوبائی حکومتوں سے رپورٹ طلب کرے اور پوچھے کہ بیمار قیدیوں سے متعلق صوبائی حکومتوں نے کیا اقدامات کیے۔

عدالت نے سیکریٹری داخلہ کو 15 روز میں رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ رپورٹ میں بتایا جائے کہ کتنے قیدی دوران قید صوبائی حکومت کے اختیارات پر عمل نہ کرنے پر انتقال کر گئے اور قیدیوں سے متعلق عدالتی حکم پر کیا عمل درآمد ہوا۔

عدالت نے بول ٹی وی کے چیف ایگزیکٹو سمیع ابراہیم کو شوکاز نوٹس جاری کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ سمیع ابراہیم کا پروگرام توہین عدالت کے مترادف تھا۔

توہین عدالت کیس کی سماعت کے لیے سنگل بینچ مقرر کرنے کا حکم بھی دیا۔

عدالت نے اینکر حامد میر، کاشف عباسی اور محمد مالک سے بھی جواب طلب کرتے ہوئے کہا کہ بظاہر پیمرا بھی اپنے کام میں ناکام ہوا ہے۔

ہائی کورٹ نے نواز شریف کی طبی بنیادوں پر منگل تک کی عبوری ضمانت منظور کرتے ہوئے 20، 20 لاکھ کے دو مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا۔

عدالت نے وزیر اعلیٰ پنجاب کو 29 اکتوبر کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے حکم دیا کہ عثمان بزدار منگل کو ڈیڑھ بجے ذاتی حیثیت میں متعلقہ بینچ کے سامنے پیش ہوں۔

بعد ازاں نواز شریف کے ضمانتیوں کی جانب سے مچلکے جمع کرا دیئے گئے جس کے بعد سابق وزیر اعظم کی رہائی کی روبکار اسلام آباد ہائی کورٹ نے جاری کردی، روبکار سپرنٹنڈنٹ جیل کوٹ لکھپت جیل کے نام بذریعہ کوریئر جاری کی گئی۔

اس سے قبل گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہونے والی سماعت میں جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے تھے کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کو قانونی طور پر ضمانت نہیں مل سکتی لیکن طبی بنیادوں پر ہم رہائی کی درخواست کو دیکھ رہے ہیں۔

سماعت میں نواز شریف کے وکلا اور معالج نے عدالت کو بتایا تھا کہ سابق وزیراعظم کو متعدد بیماریاں لاحق ہیں جبکہ ان کی صحت کی صورتحال بھی خطرناک ہے۔

دعائیں کرنے والوں کے شکر گزار ہیں، مریم اورنگزیب

اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے نواز شریف کو عبوری ضمانت دیے جانے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے مریم اورنگزیب نے نواز شریف کے لیے دعائیں کرنے والوں کا شکریہ ادا کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کا علاج جاری ہے اور 6 رکنی میڈیکل بورڈ نواز شریف کا علاج کر رہا ہے، سابق وزیر اعظم کو گزشتہ روز دل کا دورہ پڑا تھا تاہم ان کے پلیٹ لیٹس کی تعداد بہتر ہو رہی ہے۔

لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ

واضح رہے کہ سابق وزیراعلی پنجاب شہباز شریف نے 24 اکتوبر کو ہی لاہور ہائی کورٹ میں ایک الگ درخواست دائر کی تھی، جس میں چوہدری شوگر ملز کیس میں نواز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت کی استدعا کی گئی تھی۔

بعد ازاں 25 اکتوبر کو لاہور ہائی کورٹ نے اس کیس میں نواز شریف کی طبی بنیادوں پر درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے انہیں ایک کروڑ روپے کے 2 ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: چوہدری شوگر ملز کیس: نواز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت منظور

اگرچہ درخواست کے منظور ہونے کے بعد نواز شریف نیب کی حراست سے تو رہا ہوگئے تھے لیکن ان کی جیل سے اس وقت تک باضابطہ رہائی ممکن نہیں تھی جب تک اسلام آباد ہائی کورٹ العزیزیہ کیس میں ان کی سزا معطل کرکے ان کی ضمانت منظور نہ کر لے۔

واضح رہے کہ العزیزیہ اسٹیل ملز میں نواز شریف 7 سال قید کی سزا کا سامنا کر رہے ہیں۔

نواز شریف کی خرابی صحت

21 اکتوبر کو نواز شریف کی صحت اچانک خراب ہونے کی اطلاعات سامنے آئی تھیں جس کے بعد انہیں لاہور کے سروسز ہسپتال منتقل کردیا گیا تھا۔

مسلم لیگ (ن) کے قائد کے پلیٹلیٹس خطرناک حد تک کم ہوگئے تھے جس کے بعد انہیں ہنگامی بنیادوں پر طبی امداد فراہم کی گئی تھیں۔

سابق وزیر اعظم کے چیک اپ کے لیے ہسپتال میں 6 رکنی میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا تھا جس کی سربراہی ڈاکٹر محمود ایاز کر رہے ہیں جبکہ اس بورڈ میں سینئر میڈیکل اسپیشلسٹ گیسٹروم انٹرولوجسٹ، انیستھیزیا اور فزیشن بھی شامل ہیں۔

بعد ازاں اس میڈیکل بورڈ میں نواز شریف کے ذاتی معالج سمیت مزید دیگر ڈاکٹرز کو بھی شامل کرلیا گیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024