اقوام متحدہ، امریکا کا پاک-بھارت تنازع کو مذاکرات سے حل کرنے پر زور
واشنگٹن: اقوام متحدہ اور امریکا نے پاکستان اور بھارت پر زور دیا ہے کہ دونوں جوہری ممالک مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ مذاکرات کے ذریعے حل کریں۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق امریکا کی قائم مقام اسسٹنٹ سیکریٹری برائے جنوب وسطی ایشیا ایلس ویلز نے کہا کہ ’جب دو جوہری ریاستیں آمنے سامنے ہوں تو رابطے بحال کرنے کے لیے تمام ممنکہ وسائل استعمال کرنے ضرورت ہے‘۔
مزیدپڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں منصفانہ پالیسی اختیار کی جائے، ایران
انہوں نے بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں مواصلات کا نظام اور کرفیو ہٹانے کے لیے روڈ میپ فراہم کرے۔
امریکی حکام کی جانب سے بھارت پر مقبوضہ کشمیر میں معمولات زندگی بحال کرنا کا مطالبہ ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب امریکی ایوان میں متعدد قانون سازوں نے وادی میں بھارتی فورسز کے غیر انسانی سلوک پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کے ترجمان نے بتایا کہ جنرل سیکریٹری انتونیو گوتیرس کو یقین ہے کہ مقبوضہ کشمیر کا مسئلہ حل کرنے کے لیے پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات ’انتہائی ضروری‘ ہیں اور وہ اس ضمن میں دونوں ممالک کی مدد کے لیے موجود ہیں۔
تاہم بھارت کی جانب سے مسلسل ثالثی کی پیشکش کو مسترد کرتے ہوئے یہ کہا جارہا کہ کشمیر ان کا اندرونی معاملہ ہے۔
مزیدپڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں کچھ بہت سنگین ہورہا ہے، بھارتی اپوزیشن کا اظہار تشویش
علاوہ ازیں واشنگٹن نے ایک مرتبہ پھر واضح کیا کہ بھارت کی جانب سے امریکی ثالثی پر انکار کے باوجود امریکی صدر مقبوضہ کشمیر کا پر امن حل تلاش کرنے پر زور دیتے رہیں گے۔
امریکی حکام کا کہنا تھا کہ بھارت کے انکار کا مطلب یہ نہیں کہ امریکا مذاکرات کے لیے پرجوش نہیں ہے، دونوں ممالک کے مابین مثبت مذاکرات کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا چاہیے۔
اسسٹنٹ سیکریٹری ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ ’ ہم مقبوضہ کشمیر میں معمولات زندگی بحال کرنے کیلئے قید کیے گئے افراد کی رہائی کے لیے زور دیتے رہیں گے لیکن سب سے زیادہ ضروری ہے کہ سیاسی اور اقتصادی زندگی کو بحال کرنے کے لیے روڈ میپ دیا جائے'۔
ساتھ ہی انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں حریت رہنماؤں کی گرفتار پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔
یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں ہزاروں افراد کو 'پتھراؤ کے الزام' میں گرفتار کیا گیا
انہوں نے کہا کہ 'لشکرطیبہ، جیش محمد اور حزب المجاہدین جیسے گروپس ایک مسئلہ ہے کیونکہ یہ پاک-بھارت مذاکرات کے خلاف ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ستمبر میں دیے جانے والے بیان کا خیر مقدم کرتے ہیں، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ جو کوئی پاکستان سے مقبوضہ کشمیر میں لڑائی کی نیت سے جائے وہ کشمیریوں اور پاکستان کا دشمن ہوگا‘۔
واضح رہے کہ 5 اگست کو بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے متعلق صدارتی فرمان جاری کیا تھا۔
بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد وادی میں مزاحمت کو روکنے کے لیے مکمل سیکیورٹی لاک ڈاؤن کردیا گیا تھا جبکہ مواصلاتی نظام بھی معطل کردیا تھا، یہی نہیں بلکہ اب تک مقبوضہ وادی میں ہزاروں افراد، جن میں زیادہ تر نوجوان شامل ہیں، انہیں کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کیا ہے؟
واضح رہے کہ آرٹیکل 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی اور منفرد مقام حاصل ہے اور آرٹیکل ریاست کو آئین بنانے اور اسے برقرار رکھنے کی آزادی دیتا ہے۔
اس خصوصی دفعہ کے تحت دفاعی، مالیات، خارجہ امور وغیرہ کو چھوڑ کر کسی اور معاملے میں وفاقی حکومت، مرکزی پارلیمان اور ریاستی حکومت کی توثیق و منظوری کے بغیر بھارتی قوانین کا نفاذ ریاست جموں و کشمیر میں نہیں کر سکتی۔
بھارتی آئین کے آرٹیکل 360 کے تحت وفاقی حکومت کسی بھی ریاست یا پورے ملک میں مالیاتی ایمرجنسی نافذ کر سکتی ہے، تاہم آرٹیکل 370 کے تحت بھارتی حکومت کو جموں و کشمیر میں اس اقدام کی اجازت نہیں تھی۔
مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والا آرٹیکل 35 'اے' اسی آرٹیکل کا حصہ ہے جو ریاست کی قانون ساز اسمبلی کو ریاست کے مستقل شہریوں کے خصوصی حقوق اور استحقاق کی تعریف کے اختیارات دیتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی
1954 کے صدارتی حکم نامے کے تحت آرٹیکل 35 'اے' آئین میں شامل کیا گیا جو مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کو خصوصی حقوق اور استحقاق فراہم کرتا ہے۔
اس آرٹیکل کے مطابق صرف مقبوضہ کشمیر میں پیدا ہونے والا شخص ہی وہاں کا شہری ہو سکتا ہے۔
آرٹیکل 35 'اے' کے تحت مقبوضہ وادی کے باہر کے کسی شہری سے شادی کرنے والی خواتین جائیداد کے حقوق سے محروم رہتی ہیں، جبکہ آئین کے تحت بھارت کی کسی اور ریاست کا شہری مقبوضہ کشمیر میں جائیداد خریدنے اور مستقل رہائش اختیار کرنے کا حق نہیں رکھتا۔
آئین کے آرٹیکل 35 'اے' کے تحت مقبوضہ کشمیر کی حکومت کسی اور ریاست کے شہری کو اپنی ریاست میں ملازمت بھی نہیں دے سکتی۔