• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

آزادی مارچ کے موقع پر علما کی ’امن مارچ‘ کی پیشکش

شائع October 25, 2019
جب اپوزیشن آزادی مارچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تو ہم انہی تاریخوں میں امن مارچ منعقد کرسکتے ہیں— فائل فوٹو: فیس بک
جب اپوزیشن آزادی مارچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تو ہم انہی تاریخوں میں امن مارچ منعقد کرسکتے ہیں— فائل فوٹو: فیس بک

اسلام آباد: جمعیت علمائے اسلام (ف) کی جانب سے احتجاجی مارچ کی تیاریوں کے دوران بریلوی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے 70 سے زائد علما نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات میں امن مارچ کرنے کی پیشکش کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے اجلاس میں شریک شخصیت نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اجلاس کے بعد علما نے جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے آزادی مارچ کی کال کو مسترد کیا اور اسے ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے کی کوششش قرار دیا۔

ایک سینئر مذہبی رہنما نے کہا کہ ’جب اپوزیشن آزادی مارچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تو ہم انہی تاریخوں میں امن مارچ منعقد کرسکتے ہیں‘۔

مزید پڑھیں: ’ آزادی مارچ‘ کے پیشِ نظر پولیس کی انسداد فسادات مشقیں

اجلاس میں وفاقی وزیر مذہبی امور نور الحق قادری اور پنجاب کے وزیر برائے محکمہ اوقاف پیر سعید الحسن بھی اجلاس میں شریک تھے۔

وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کرنے والے نامور علما میں گولڑہ شریف کے پیر شمس الدین، پیر ناظم الدین جامی، سلطان باہو کے پیر سلطان احمد علی، راولپنڈی کے پیر عظمت سلطان قادری اور پیر سلطان العارفین شامل تھے۔

اجلاس کے دوران علما نے آزادی مارچ کے خلاف وزیراعظم عمران خان کےموقف کی حمایت کی۔

اس حوالے سے اجلاس میں شریک سینئر عالم نے کہا کہ ’وزیراعظم ہم سب آپ کے ساتھ ہیں اور ہم میں سے ہر ایک کے ہزاروں پیروکار ہیں‘۔

آزادی مارچ

واضح رہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) نے جون میں یہ اعلان کیا تھا کہ ان کی جماعت اکتوبر میں اسلام آباد میں حکومت مخالف لانگ مارچ کرے گی۔

اپوزیشن جماعت کے سربراہ کا اس آزادی مارچ کو منعقد کرنے کا مقصد 'وزیراعظم' سے استعفیٰ لینا ہے کیونکہ ان کے بقول عمران خان 'جعلی انتخابات' کے ذریعے اقتدار میں آئے۔

مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے اس لانگ مارچ کے لیے پہلے 27 اکتوبر کا اعلان کیا گیا تھا لیکن بعد ازاں اسے 31 اکتوبر تک ملتوی کردیا گیا، ساتھ ہی یہ کہا گیا کہ 27 اکتوبر کو دنیا بھر میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قبضے کے خلاف یوم سیاہ منایا جاتا ہے، لہٰذا اس روز کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: اپوزیشن سے مذاکرات کیلئے حکومت کی 7 رکنی کمیٹی تشکیل

اس آزادی مارچ کے اعلان کے بعد وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ ہفتے جے یو آئی (ف) اور دیگر اپوزیشن جماعتوں سے مذاکرات کے لیے وزیر دفاع پرویز خٹک کی سربراہی میں ایک 7 رکنی مذاکراتی کمیٹی قائم کی تھی۔

ابتدائی طور پر کمیٹی کے رکن اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی جانب سے ملاقات کے لیے ٹیلی فون پر رابطہ کرنے کے بعد جے یو آئی (ف) کے سربراہ نے اپنی جماعت کے سیکریٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری کو اس ملاقات کی اجازت دی تھی۔

تاہم 20 اکتوبر کو پاکستان پیپلز پارٹی کے تحفظات کے بعد مولانا فضل الرحمٰن نے پارٹی کے وفد کو صادق سنجرانی سے ملاقات کرنے سے روک دیا تھا اور کہا تھا کہ حکومت سے مذاکرات کا فیصلہ اب اپوزیشن کی مشترکہ رہبر کمیٹی کرے گی۔

علاوہ ازیں 21 اکتوبر کو اپوزیشن کی رہبر کمیٹی نے فیصلہ کیا تھا کہ حکومت سے مذاکرات پرامن مارچ کی یقین دہانی کے بعد ہوں گے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024