کسی بھی ادارے میں ’مزدور‘ کون ہوتا ہے؟
کیا صنعتی یا کاروباری ادارے میں کام کرنے والا شخص قانون کی نظر میں ’ورک مین‘ (مزدور) قرار پاتا ہے یا نہیں؟ یہ ایسا موضوع ہے جو کم و بیش ایک صدی سے عدالتوں میں متنازع ترین مسائل میں سے ایک بنا ہوا ہے۔ کیوں؟ کیونکہ مزدور کو لیبر قوانین کا تحفظ حاصل ہے، یوں اُسے قانون کے تحت چند حقوق حاصل ہیں اور مختلف فوائد و مراعات کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ تاہم یہ حقوق اور فوائد و مراعات ان ملازمین کے لیے دستیاب نہیں ہیں جو مزدوروں کی کیٹیگری میں شمار نہیں ہوتے۔
مزدوروں کو حاصل ان حقوق میں سے ایک غیر معمولی حق ملازمت سے ناجائز طور پر نکالے جانے پر اپنی ملازمت کی بحالی کے لیے لیبر کورٹ میں پٹیشن دائر کرنے کا حق ہے۔ 1972ء کی ابتدا میں جب میں نے انڈسٹریل ریلیشنز (صنعتی تعلقات) کے میدان میں کام کرنا شروع کیا تب لیبر کورٹس کو ایسے متعدد مقدمات سے نمٹنا ہوتا تھا جن میں انہیں یہ متعین کرنا ہوتا تھا کہ پیٹیشن دائر کرنے والا مزدور کے درجے میں آتا ہے یا نہیں۔ ایک بار جب درخواست گزار مزدور قرار پاتا تو کورٹس اس سوال پر عدالتی کارروائی شروع کرتیں کہ آیا اس شخص کو ملازمت سے جائز طور پر فارغ کیا گیا ہے یا نہیں۔
ویسٹ پاکستان انڈسٹریل اینڈ کمرشل ایمپلائمنٹ (اسٹیڈنگ آرڈرز) آرڈینینس 1968 میں مزدور (workman) کی تعریف کچھ اس طرح لکھی گئی ہے: ’کوئی بھی شخص کسی صنعتی یا کاروباری ادارے میں معاوضے یا اجرت کے بدلے میں کوئی بھی ہنرمند یا غیر ہنرمند، دستی (مینؤل) یا کلارکی کام کرتا ہے وہ مزدور (workman) ہے۔‘ اس وقت کی عدالتیں چوکیداروں یا ڈروائیوروں کو مزدور تصور نہیں کرتی تھیں کیونکہ انہیں اداروں کے اندر باقاعدہ مینؤل کام کرتے ہوئے نہیں پایا جاتا تھا۔ چنانچہ اگر انہیں ناجائز طور پر ملازمت سے فارغ کیا جاتا تو بھی انصاف کے ادارے ان کی کوئی مدد نہیں کرپاتے۔
ملازمت سے نکالے جانے سے متعلق مقدمات میں کمپنیوں کے وکلا کمپنیوں کی کارروائی کا دفاع کرتے ہوئے اکثر و بیشتر ایک ابتدائی اعتراض یہ اٹھاتے ہیں کہ درخواستگذار قانون کی رو سے مزدور قرار نہیں پاتا۔
اگر اعتراض تسلیم کرلیا جاتا ہے تو معاملہ وہیں پر ختم ہوجاتا ہے اور عدالتیں مقدمے کی تفصیلات میں ہی نہیں جاتیں۔
لاہور کے علاقے کوٹ لکھپت میں واقع سرکاری کمپنی میں ملازمت کے دوران مجھے ایک ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہوا تھا۔ ہماری کمپنی کا ایک ڈرائیور کافی اکھڑ مزاج اور جھگڑالو طبعیت کا تھا اور ہر کسی کے ساتھ بدتمیزی کیا کرتا۔ جب اسے ملازمت سے نکال دیا گیا تو اس نے اپنی نوکری کی بحالی کے لیے جونیئر لیبر کورٹ میں دراخواست جمع کروادی، ان دنوں جونیئر لیبر کورٹس کو 7 دنوں کے اندر متاثرہ مزدوروں کو تیز رفتار انصاف کی فراہمی کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ ان عدالتوں کو پیپلزپارٹی کی پہلی حکومت نے قائم کیا تھا لیکن یہ زیادہ دیر تک نہ چل سکیں کیونکہ یہ عدالتیں مقدمات نمٹانے کے لیے دی گئی ڈیڈ لائن پر اکثر پورا نہیں اتر پاتیں۔
اس مقدمے میں میں نے ابتدائی اعتراض اٹھایا کہ درخواستگذار چونکہ ڈرائیور ہے اس لیے قانون کی رو سے یہ مزدور شمار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ کسی قسم کی مینؤل مزدوری نہیں کرتا۔ عدالت نے میرے مؤقف کی حمایت کرتے ہوئے ڈرائیور کی پٹیشن کو مسترد کردیا۔
1973ء میں 1968ء کے آرڈینینس کی اس شق کو انڈسٹریل آرڈینینس، 1969ء کا حصہ بنا دیا گیا، جس کے مطابق مزدور کو اپنے خلاف ہونے والی کارروائی کے خلاف ابتدائی طور پر ادارے میں ہی درخواست جمع کروانی ہوتی ہے اور اگر وہاں سے درخواست مسترد کردی جائے تو پھر وہ عدالت میں درخواست جمع کرواسکتا ہے۔ آرڈینینس میں انتظامیہ (Management) سے متعلق یا انتظامی (Administrative) عہدوں پر فائز افراد کے علاوہ ادارے میں کام کرنے والا ہر شخص مزدور قرار پایا۔ جس کے نتیجے میں ڈرائیور کو مزدور تصور نہ کرنے سے متعلق دلیل اب زیادہ پائیدار نہیں رہی تھی اور مسئلہ حل ہوگیا۔ سپریم کورٹ کے 1996ء میں دیے گئے ایک فیصلے کی بدولت چوکیدار کو بھی مزدور تصور کیے جانے لگا۔
کتنی ستم ظریفانہ بات ہے، پاکستان اور بھارت میں اعلی عدالتوں نے ایسے بے تحاشا فیصلے سنائے ہیں جن کے تحت بھاری تنخواہیں اور اضافی مراعات حاصل کرنے والے پائلٹس بھی مزدور ٹھہرائے گئے ہیں۔
ایک معاملے میں یہ مؤقف اپنایا گیا تھا کہ اگر کوئی ملازم مزدور ہونے کا دعوی کرتا ہے تو اسے یہ ثابت کرنے کے لیے دستاویزی یا زبانی شواہد عدالت کے سامنے پیش کرنے کی ذمہ داری بھی اسی پر عائد ہوتی ہے۔ اگر اس شخص کے فرائض میں دستی کام کے بجائے ذہنی مشقت یا دیگر ملازمین کے کاموں کی نگرانی شامل ہے تو پھر اسے مزدور قرار نہیں دیا جاسکتا۔
مزدوروں سے متعلق ہر قانون میں ’مزدور‘ یا ’ملازم‘ کی اپنی الگ تعریف پائی جاتی ہے، یوں ان قوانین سے وہی افراد استفادہ کرسکتے ہیں جو اس میں درج مزدور کی کیٹیگری میں آتے ہیں۔ چند لیبر قوانین میں درج ’مزدور‘ یا ’ملازم‘ کی تعریف پر پورا اترنے والے افراد کی اہلیت کا تعین اجرت کی مقررہ حد کے ذریعے کیا جاتا ہے، جبکہ چند قوانین میں اس کا دارومدار لوگوں کے کام کی نوعیت ہوتا ہے۔
مثلاً، صوبائی ملازمین کے سماجی تحفظ سے متعلق ایکٹس کا اطلاق سندھ میں ان ملازمین پر ہوتا ہے جو 22 ہزار 500 روپے ماہانہ تنخواہ اور پنجاب میں 22 ہزار روپے تنخواہ اٹھاتے ہیں۔ دوسری طرف ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹس ایکٹ کا اطلاق کمپنی کے ڈائریکٹرز کو چھوڑ کر تمام ملازمین پر ہوتا ہے۔
لیبر قوانین کے بارے میں سطحی علم رکھنے والے افراد اکثر یہ کہتے ہیں کہ مزدوروں سے متعلق تمام قوانین میں مزدور کی یکساں تعریف شامل کرنے میں کیا مسئلہ ہے۔ تاہم مزدور یا ملازمین سے متعلق قوانین کے ماہرین اور صلاح کاروں کی رائے یہ ہے کہ اب یہ ضروری ہوگیا ہے کہ لیبر قوانین کا اطلاق صرف ان ملازمین تک محدود کردیا جائے جنہیں قانون ساز ادارے یہ مخصوص فوائد یا تحفظ فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ اگر کوئی شخص لیبر قوانین کے فراہم کردہ حقوق اور مراعات حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے سب سے پہلے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ ’مزدور‘ (workman) کی تعریف پر پورا اترتا ہے۔
یہ مضمون 24 اکتوبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
تبصرے (1) بند ہیں