اردوان نے مغرب پر شام میں 'دہشت گردوں کا ساتھ دینے' کا الزام عائد کردیا
ترک صدر رجب طیب اردوان نے مغربی ریاستوں پر تنقید کرتے ہوئے شام میں کرد جنگجوؤں کے خلاف ترکی کے آپریشن میں تعاون نہ کرنے پر ان پر دہشت گردوں کا ساتھ دینے کا الزام عائد کردیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق استنبول میں ان کا کہنا تھا کہ 'کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ نیٹو کے رکن ممالک اور یورپی یونین کے ممالک سمیت تمام مغربی ریاستیں دہشت گردوں کے ساتھ ہیں اور ہم پر حملہ کر رہی ہیں'۔
انہوں نے سوال کیا کہ 'آپ نے کب سے دہشت گردوں کا ساتھ دینا شروع کردیا، کیا شامی کرد فورسز (پی وائے ڈی-وائے پی جی) نے نیٹو میں شمولیت اختیار کرلی ہے اور ہمیں اس کا علم نہیں ہے؟'
مزید پڑھیں: شمالی شام میں جنگ بندی کے باوجود کرد دہشت گردوں نے حملہ کیا، ترکی
واضح رہے کہ انقرہ کا ماننا ہے کہ وائے پی جی کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کی ذیلی 'دہشت گرد' تنظیم ہے جو ترکی میں 1984 سے بغاوت کی کوششیں کر رہی ہے۔
انقرہ، امریکا اور یورپی یونین کی جانب سے 'پی کے کے' کو بلیک لسٹڈ دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیا ہے۔
انقرہ کی کرد فورسز کے خلاف فوجی کارروائی پر بین الاقوامی سطح پر تنقید سامنے آئی ہے اور نیٹو ممالک نے نئے اسلحے کی فروخت معطل کردی ہے۔
نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینس اسٹولٹین برگ نے 9 اکتوبر سے شامی کرد فورسز کو سرحد کے پیچھے دھکیلنے کے لیے شروع ہونے والے آپریشن پر بارہا 'گہری تشویش' کا اظہار کیا ہے۔
رجب طیب اردوان نے علاقے پر قبضہ کرنے کے ارادے کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'ترکی کی ملک کی زمین پر کوئی نظر نہیں، ہم اس طرح کے الزامات کو ہماری سب سے بڑی تذلیل سمجھتے ہیں'۔
یہ بھی پڑھیں: شام میں کرد ٹھکانوں پر حملے، امریکا نے ترکی پر پابندیاں لگادیں
ترکی نے امریکی نائب صدر مائیک پینس کے ساتھ معاہدے کے بعد 120 گھنٹوں کے لیے فوجی آپریشن معطل کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔
معاہدے کے تحت کرد جنگجوؤں کو سرحد کے ساتھ 'سیف زون' کے قیام کے لیے علاقہ خالی کرنے کا موقع دیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ ترک صدر کی بحر اسود کے ریزورٹ سوچی میں منگل کے روز روسی صدر ولادی میر پیوٹن سے ملاقات طے ہے۔