• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

سیکریٹری سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس عیسیٰ کے الزامات مسترد کردیے

شائع October 20, 2019
جسٹس قاضی فائز نے کہا تھا کہ سیکریٹری ایس جے سی نے ریفرنس اس وقت سماعت کے لیے مقرر کیا جب وہ چھٹی پر گئے ہوئے تھے — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
جسٹس قاضی فائز نے کہا تھا کہ سیکریٹری ایس جے سی نے ریفرنس اس وقت سماعت کے لیے مقرر کیا جب وہ چھٹی پر گئے ہوئے تھے — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد: سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کے سیکریٹری ارباب محمد عارف نے سپریم کورٹ کو جمع کروائے گئے جواب میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے لگائے گئے الزامات کو مسترد کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق صدارتی ریفرنس کے خلاف دائر درخواست میں لارجر بینچ کو جمع کروائے گئے ایک صفحے پر مشتمل جواب الجواب میں سیکریٹری سپریم جوڈیشل کونسل نے دعویٰ کیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے جواب میں لگائے گئے الزامات ریکارڈ کے خلاف ہیں اور انہوں نے ہمیشہ اپنے فرائض ایمانداری اور دیانتداری سے انجام دیے ہیں۔

ارباب محمد عارف نے کہا کہ انہوں نے نیک نیتی سے اپنے فرائض انجام دیے اور ہمیشہ اعلیٰ عدالتوں کے تمام ججز کا احترام کرتے رہیں گے۔

خیال رہے کہ لارجر بینچ کو جمع کروائے گئے جواب الجواب میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے الزام عائد کیا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے سیکریٹری نے غیر معمولی عجلت کا مظاہرہ کرکے کونسل میں صدارتی ریفرنس سماعت کے لیے مقرر کیا جب کہ ایس جے سی نے دائرہ کار سے باہر سماعت کی ہدایت نہیں دی تھی۔

مزید پڑھیں: پی بی سی کا جسٹس عیسیٰ کے کیس کو دائرہ کار سے باہر لے جانے پر عدالت سے رجوع

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے جواب الجواب کے مطابق سیکریٹری ایس جے سی نے ریفرنس اس وقت سماعت کے لیے مقرر کیا جب وہ اپنے اہلیہ کے والد جنہیں کینسر کی تشخیص ہوئی تھی ان کی دیکھ بھال میں معاونت کے لیے چھٹی پر گئے تھے۔

جواب الجواب میں کہا گیا تھا کہ صورتحال کی وجہ سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو شفاف ٹرائل اور دیگر کارروائی کے بنیادی حق سے محروم کردیا تھا خاص طور پر جب وہ کوئی قانونی مشاورت اور نمائندگی حاصل نہیں کرسکتے تھے۔

اسی طرح ارباب محمد عارف نے اٹارنی جنرل، ریفرنس کے پراسیکیوٹر کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ردعمل بھی فراہم جبکہ سپریم جوڈیشل کونسل نے انہیں ایسا کرنے کا نہیں کہا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے الزام عائد کیا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے سیکریٹری نے ان کے نجی سیکریٹری سے جواب الجواب کی کاپی حاصل کی اور جس روز جواب جمع کروایا گیا تھا یعنی 28 جون کو اٹارنی جنرل کو وہ کاپی فراہم کردی گئی تھی۔

انہوں نے کہا تھا کہ سیکریٹری ایس جے سی نے اٹارنی جنرل کو جواب کی کاپی فراہم کرنے میں کی گئی جلد بازی سے متعلق کونسل کو اندھیرے میں رکھا تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے یہ بھی کہا تھا کہ اسی طرح سیکریٹری ایس جے سی نے سپریم جوڈیشل کونسل کی کسی ہدایت کے بغیر کونسل کے اختیارات سنبھالتے ہوئے اٹارنی جنرل کی جانب سے غیر قانونی طور پر دائر جواب الجواب دیکھا جو سپریم جوڈیشل کونسل پروسیجر آف انکوائری، 2005 کی خلاف ورزی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: جسٹس عیسیٰ کی درخواست پر اٹارنی جنرل کو جواب جمع کروانے کی ہدایت

علاوہ ازیں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ ایس جے سی کے سیکریٹری کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے صدر عارف علوی کو لکھے گئے 3 خطوط فراہم کیے گئے تھے جس میں انہوں نے اپنے خلاف کیے جانے والے میڈیا ٹرائل، کردار کشی، تضحیک، بدنامی اور ان کے بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کے خلاف شکایت درج کروائی تھی‘۔

انہوں نے کہا کہ سیکریٹری نے ان میں سے کسی بھی خط کو اس قابل نہیں سمجھا کہ چیف جسٹس یا سپریم جوڈیشل کونسل کے جج کے لیے کوئی نوٹس تیار کیا جاسکے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ سیکریٹری ایس جے سی نے تفریق کی اور خطوط کے خلاف دائر شکایات کو فوری منظور کیا جس میں خط کے مواد سے متعلق کوئی ٹھوس ثبوت بھی موجود نہیں تھا اور راتوں رات ایک فیکٹ شیٹ تیار کرکے سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے پیش کی گئی تھی۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ ارباب محمد عارف نے شوکاز نوٹس میں وہ مواد بھی شامل کیا جو صدارتی ریفرنس میں شامل نہیں تھا تاہم انہوں نے اٹارنی جنرل کی جانب سے جمع کروائے گئے جواب الجواب کا حوالہ دیا اور اس کے مواد میں تبدیلی کرکے شامل کیا۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ اس طرح کی ترکیبیں اپنا کر سپریم جوڈیشل کونسل کے سیکریٹری خود شکایت کنندہ بن گئے تھے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست

خیال رہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں صدارتی ریفرنس کا سامنا کرنے والے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدارتی ریفرنس کو چیلنج کرتے ہوئے اپنی درخواست فل کورٹ کی تشکیل کے لیے عدالتی مثالیں دیتے ہوئے کہا تھا کہ فل کورٹ بنانے کی عدالتی نظیر سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بنام ریاست کیس میں موجود ہے۔

اپنے اعتراضات کی حمایت میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ ان کے خلاف ریفرنس 427 (دوسری درخواست) پر سپریم جوڈیشل کونسل نے اپنے فیصلے میں 'تعصب' ظاہر کیا اور وہ منصفانہ سماعت کی اپنی ساخت کھوچکی ہے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے صدارتی ریفرنس چیلنج کردیا

اپنی درخواست میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ وہ کوئی بھی ریفرنس کا سامنا کرنے کو تیار ہیں اگر وہ قانون کے مطابق ہو لیکن انہوں نے افسوس کا اظہار کیا تھا کہ ان کی اہلیہ اور بچوں کو مبینہ طور پر اذیت کا نشانہ بنایا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے موقف اپنایا تھا کہ درخواست گزار کی اہلیہ اور بچوں پر غیر قانونی طریقے سے خفیہ آلات اور عوامی فنڈز کے غلط استعمال کرکے سروے کیا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنسز

واضح رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کا معاملہ رواں سال مئی میں شروع ہوا اور ان پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے برطانیہ میں اپنی ان جائیدادوں کو چھپایا جو مبینہ طور پر ان کی بیوی اور بچوں کے نام ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کی درخواست،'لوگوں کو یہ پریشانی ہے کہ کیس کیوں سنا جارہا ہے'

تاہم اس ریفرنس سے متعلق ذرائع ابلاغ میں خبروں کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت عارف علوی کو متعدد خطوط لکھے اور پوچھا کہ کیا یہ خبریں درست ہیں۔

بعدازاں لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل نے جج کی جانب سے صدر مملکت کو خط لکھنے اور ان سے جواب مانگنے پر ایک اور ریفرنس دائر کیا گیا تھا اور الزام لگایا تھا کہ انہوں نے ججز کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی۔

تاہم سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) نے اس ریفرنس کو خارج کردیا اور کہا کہ کئی وجوہات کی بنا پر کونسل کو صدر مملکت کو خطوط لکھنے کا معاملہ اتنا سنگین نہیں لگا کہ وہ مس کنڈکٹ کا باعث بنے اور اس کی بنیاد پر انہیں (جسٹس قاضی فائز عیسیٰ) کو سپریم کورٹ کے جج کے عہدے سے ہٹایا جاسکے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024