میشا شفیع ہراسانی کیس، کام کی جگہ پر ہراسمنٹ کے قانون میں نہیں آتا، عدالت
لاہور ہائیکورٹ نے اداکار و گلوکار علی ظفر کے خلاف اداکارہ و گلوکارہ میشا شفیع کی اپیل کا تحریری تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ میشا شفیع کا کیس ورک پلیس ہراسمنٹ کے قانون میں نہیں آتا۔
لاہور ہائیکورٹ نے 11 اکتوبر کو گلوکارہ کی اس درخواست کو مسترد کر دیا تھا جس میں انہوں نے گورنر پنجاب کے احکامات کو چیلنج کیا تھا۔
گورنر پنجاب نے گزشتہ سال میشا شفیع کی درخواست پر محتسب کے فیصلے کے خلاف اپیل مسترد کر دی تھی، اپیل میں کہا گیا تھا کہ محتسب نے 'تیکنیکی بنیادوں' پر میشا شفیع کی درخواست مسترد کی تھی۔
مزید پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ: علی ظفر کے خلاف میشا شفیع کی درخواست مسترد
جس کے بعد میشا شفیع کے وکیل نے گورنر پنجاب کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا لیکن لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے بھی گورنر پنجاب کا میشا شفیع کی ہراساں کرنے سے متعلق درخواست مسترد کرنے کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔
رپورٹس کے مطابق جسٹس شاہد کریم نے میشا شفیع کی اپیل پر 34 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا۔
لاہور ہائیکورٹ نے گورنر پنجاب کے فیصلے کو برقرار رکھا اور قرار دیا کہ میشا شفیع اور علی ظفر کے درمیان مالک اور ملازم کا رشتہ نہیں تھا۔
یاد رہے کہ میشا شفیع کی قانونی ٹیم نے جنسی ہراساں کرنے کی شکایت پنجاب کے صوبائی محتسب کے پاس ورک پلیس ایکٹ 2010 کی شق کے تحت خواتین کو ہراساں ہونے سے بچانے سے متعلق دائر کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: میشا شفیع کے جنسی ہراساں کرنے کے الزامات پر صوبائی محتسب کا فیصلہ
اس حوالے سے تفصیلی فیصلے میں بتایا گیا کہ خواتین کے کام کی جگہ پر ہراساں کرنے کے قانون کا اطلاق صرف ادارے کے ملازم پر ہوتا ہے۔
جسٹس شاہد کریم کا کہنا تھا کہ میشا شفیع نے ایک خود مختار خاتون کو ورکنگ وومن کی تعریف میں شامل کرنے کی استدعا کی جو قانون کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میشا شفیع نے اپنی شکایت میں یہ دعوی نہیں کیا تھا کہ وہ کمپنی کی سپروائزر یا ملازمہ تھی جس کے باعث ان کا کیس ورک پلیس ہراسمنٹ کے قانون میں نہیں آتا۔
عدالت کے فیصلے کے مطابق ورک پلیس ہراسمنٹ کا قانون ہر خاتون کیلئے نہیں ہے، یہ صرف ان خواتین کیلئے ہے جو کام کی جگہ پر ہراسانی کا شکار ہوتی ہیں۔
مزید پڑھیں: جنسی ہراساں کرنے کا الزام،علی ظفر نے میشا شفیع کو جھوٹاقرار دیدیا
خیال رہے کہ رواں سال 19 اپریل کو میشا شفیع نے ایک ٹوئٹر پیغام میں علی ظفر پر جنسی ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'آج میں نے بولنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ میرا ضمیر مجھے مزید خاموش رہنے کی اجازت نہیں دیتا، اگر ایسا کچھ میرے جیسے کسی فرد یعنی ایک معروف آرٹسٹ کے ساتھ ہوسکتا ہے تو پھر کسی بھی نوجوان لڑکی کے ساتھ ایسا ہوسکتا ہے جو انڈسٹری میں آگے بڑھنا چاہتی ہے اور اس نے مجھے بہت زیادہ فکرمند کردیا ہے'۔
انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ انہیں علی ظفر کے ہاتھوں ایک سے زائد مرتبہ جسمانی طور پر جنسی ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی۔
دوسری جانب اسی روز علی ظفر نے میشا شفیع کے الزامات پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ان تمام الزامات کی تردید کی تھی۔
رواں ماہ بی بی سی ایشین نیٹ ورک کو ایک انٹرویو کے دوران علی ظفر نے کہا تھا کہ 'لوگ وقت کے ساتھ جان سکیں گے، وقت گزرنے کے ساتھ سب کچھ سامنے آئے گا اور سچائی خود سامنے آئے گی، میں شروع سے کہہ رہا ہوں کہ میں اس معاملے پر سوشل میڈیا پر لڑنا نہیں چاہتا کیونکہ میں پروفیشنل طریقہ اپنانا چاہتا ہوں اور میں پروفیشل طریقے سے اس کا حل چاہتا ہوں اور قانون کے ذریعے انصاف ملے گا'۔
گزشتہ ڈیڑھ سال سے علی ظفر اور میشا شفیع کے درمیان قانونی تنازع جاری ہے جس میں اب تک علی ظفر کی جانب سے پیش کیے گئے 12 گواہوں کے بیانات قلم بند کیے جاچکے ہیں۔
عدالت میں پیش کیے گئے گواہوں نے میشا شفیع کے الزامات کو جھوٹا قرار دیا تھا۔