پیپلز پارٹی کا ’کھمبا‘ نتیجے کے دن گر گیا
وہ لاڑکانہ جو ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو، میر مرتضیٰ بھٹو کا لاڑکانہ تھا۔ جس شہر نے بھوپال سے آئے محسن بھوپالی کو اپنا پن دیا، محبت دی۔ ایسی محبت کہ ایک دن محسن بھوپالی کہہ بیٹھے کہ
’ارض بھوپال سے تھا تعلق کبھی، اب تو سب کچھ ہے یہ لاڑکانہ میرا۔‘
سندھی میں کہاوت ہے کہ ھئی نانو تہ گھم لاڑکانو، مطلب اگر جیب میں پیسے ہوں تو لاڑکانہ جاؤ، یعنی یہ اتنا مہنگا شاہ خرچ شہر رہا ہے۔
باغی اور انقلابی شاعر حبیب جالب نے تو کمال ہی کردیا۔ لاڑکانہ پر ایسی نظم لکھ ڈالی کہ پھر بھٹو مخالف ہر مجلس، محفل، مظاہرے، جلسے کی ابتدا ہی اس نظم سے ہونا شروع ہوگئی۔ حبیب جالب کہتے ہیں کہ
قصر شاہی سے یہ حکم صادر ہوا لاڑکانے چلو
ورنہ تھانے چلو
اپنے ہونٹوں کی خوشبو لٹانے چلو گیت گانے چلو
ورنہ تھانے چلو
منتظر ہیں تمہارے شکاری وہاں کیف کا ہے سماں
اپنے جلوؤں سے محفل سجانے چلو مسکرانے چلو
ورنہ تھانے چلو
حاکموں کو بہت تم پسند آئی ہو ذہن پر چھائی ہو
جسم کی لو سے شمعیں جلانے چلو، غم بھلانے چلو
ورنہ تھانے چلو
اسی لاڑکانے میں جب ذوالفقار بھٹو، بینظیر بھٹو کی جماعت پیپلز پارٹی ضمنی انتخاب میں شکست کھا جائے تو پھر لاڑکانہ کو یاد کرنا شاید ضروری ہوجاتا ہے۔
اب نہ ذوالفقار بھٹو رہے، نہ بینظیر کو زندہ رہنے کا بنیادی حق دیا گیا، بھٹو خاندان کے دشمنوں نے ذوالفقار بھٹو کے دونوں شہزادوں کو بھی مار دیا اور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ اب تو لاڑکانہ سے شکوہ کرنے والا نہ حبیب جالب ہے نہ اس شہر کی مٹی سے محبت کرنے والا محسن بھوپالی رہا۔ اب بھٹوز کے شہر کے والی وارث اور ان قبروں کے رکھوال ہیں آصف علی زرداری، فریال تالپور اور پھر بلاول بھٹو زرداری۔
کسی ایک شہر، تحصیل، ضلع کو ماڈل شہر بنانے کے لیے کتنا عرصہ درکار ہوسکتا ہے؟ لاڑکانہ کو تو پیرس بننا تھا، بھٹو کو اس سے پہلے مار دیا گیا۔ بینظیر کو بھی ڈھنگ سے حکومت نہیں کرنے دی گئی لیکن آصف علی زرداری اور فریال تالپور تو 12 برس سے حکمرانی کر رہے ہیں۔ انہوں نے لاڑکانہ کو کیا دیا؟
لاڑکانہ کے ضمنی انتخاب میں پیپلز پارٹی کے امیدوار کی شکست آج کی قیادت کو آئینہ دکھانے کے لیے کافی ہے۔ شکست خوردہ لاڑکانہ اصل میں بیڈ گورننس کی دہائی دے رہا ہے۔ یہ شکست بتا رہی ہے کہ لاڑکانہ اب بھٹوز کا نہیں رہا۔ پی ایس 11 کے ضمنی انتخابات کے غیر سرکاری نتائج آچکے، جس کے مطابق پیپلز پارٹی کے امیدوار جمیل احمد سومرو کو اپنے ہی گڑھ میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے اور ان کے مقابلے میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) کے امیدوار معظم عباسی جیت گئے ہیں۔
معظم عباسی یعنی پیپلز پارٹی کے مخالف امیدوار کی یہ مسلسل دوسری فتح ہے۔ اس سے پہلے انہوں نے نثار کھوڑو کے آبائی حلقے سے ان کی صاحبزادی کو شکست دی اور اب کی بار مخالف امیدوار نے پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو کے سیاسی مشیر کو شکستِ فاش سے دوچار کیا ہے۔
حلقہ بندیوں کے بعد یہ حلقہ شہر میں آگیا ہے۔ پہلے یہ قمبر لاڑکانہ کی حدود میں آتا تھا لیکن اس حلقہ کا ریکارڈ ہے کہ یہاں 1970ء سے 1990ء تک پیپلز پارٹی ناقابلِ شکست رہی تھی۔ پھر 1993ء کے عام انتخابات میں جب نصرت بھٹو اپنے بڑے بیٹے میر مرتضیٰ کے لیے گھر گھر گئی تو لوگوں نے میر مرتضیٰ کو پیپلز پارٹی کے امیدوار پر سبقت دلا کر سرخرو کیا۔
وقت وقت کی بات ہے، مرتضیٰ بھٹو کے سامنے پیپلز پارٹی کا امیدوار منور عباسی تھا اور آج اسی کے بیٹے معظم عباسی نے پیپلز پارٹی کے امیدوار جمیل سومرو کو شکست دے دی ہے۔ پھر1997ء سے 2013ء تک بھی یہ حلقہ پیپلز پارٹی کا ہی رہا ہے اور یہاں ہر مخالف امیدوار کو شکست ہوتی رہی ہے۔ لیکن 2018ء میں یہ روایت مرتضیٰ بھٹو کے ہاتھوں شکست کھانے والے منور علی عباسی کے بیٹے معظم عباسی نے توڑی جنہوں نے پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما نثار احمد کھوڑو کی صاحبزادی ندا کھوڑو کو 12 ہزار ووٹوں سے شکست دی۔
امیدواروں کا تعارف
ضمنی انتخابات، اس کے نتائج، شکست، کامیابی، کمزوریاں اور حکمت عملی پر ضرور بات کریں گے، مگر سب سے پہلے ان امیدواروں کا تعارف بھی ضروری ہے جو اس حلقے سے انتخابات میں حصہ لے رہے تھے۔
سب سے پہلے بات کرتے ہیں جیتنے والے امیدوار یعنی معظم عباسی کی۔ وہ ناصرف خود پڑھے لکھے ہیں بلکہ ان کا خاندان بھی اچھی شہرت رکھتا ہے۔ ایچی سن کالج لاہور سے تعلیم یافتہ معظم عباسی کی دادی ڈاکٹر بیگم اشرف عباسی ناصرف قومی اسمبلی کی پہلی خاتون ڈپٹی اسپیکر رہیں بلکہ وہ لاڑکانہ کی پہلی پروفیشنل لیڈی ڈاکٹر بھی تھیں۔
ڈاکٹر صفدر عباسی اور منور عباسی کا شمار ہمیشہ ہی محترمہ بینظیر بھٹو کے وفادار ساتھیوں میں ہوا، مگر محترمہ کی موت کے بعد وفاداری کا یہ الم ان کے ہاتھوں سے چھین لیا گیا۔
معظم عباسی کے سامنے پیپلز پارٹی کا ٹکٹ ہولڈر لاڑکانہ کا ہوتے ہوئے بھی لاڑکانہ کا نہیں، اور پیپلز پارٹی اب شاید بھول گئی ہے کہ ووٹرز اب ہوشیار ہوگئے ہیں۔ تبھی تو لاڑکانہ کا ایک عام ووٹر جمیل سومرو کو کہہ رہا تھا کہ آپ ووٹ لیکر نظر ہی نہیں آئیں گے اور امیدوار جمیل سومرو ہاتھ جوڑتے ہوئے اسے منا رہا تھا ہے کہ میں یہیں رہوں گا۔
پی ایس 11 لاڑکانہ میں پیپلز پارٹی کے امیدوار جمیل سومرو کے پاس کسی جیل جانے، کوڑے کھانے، گرفتار ہونے یا جلاوطنی سے متعلق کوئی سرٹیفکیٹ بھی نہیں ہے۔ یہ جناب لاڑکانہ ڈگری کالج میں پڑھتے تھے، وہاں سے ہوتے ہوئے سندھ یونیورسٹی پہنچے اور اچانک ایک دن ممتاز علی بھٹو کی پارٹی میں چلے گئے۔ وہاں سے ایک بار پھر پیپلز پارٹی میں آئے، کسی طرح بلاول ہاؤس تک پہنچے اور پھر ایک دن بلاول بھٹو زرداری کے پولیٹیکل سیکریٹری بن گئے۔
لاڑکانہ کے لوگ بتاتے ہیں کہ وہ فقط انتخابات کی وجہ سے یہاں موجود ہیں، وہ کبھی بھی ایک ساتھ اتنا طویل عرصہ لاڑکانہ میں نہیں رہے۔ ان کے پاس رہنے کے لیے جو گھر ہے اس پر بھی میونسپل کا کوئی تنازعہ ہے۔ انتخابات میں جن 2 گھروں کو جمیل سومرو نے ٹھکانا بنایا ہے وہ بھی ان کے اپنے نہیں ہیں۔ ایک ان کے انجینئر دوست کا ہے جسے 18ویں گریڈ میں ہوتے ہوئے بھی 19ویں گریڈ کا چارج دلایا گیا ہے۔ دوسرا بھی کسی ایسے زمیندار کا بنگلہ ہے جس نے مستقبل میں سینیٹر بننے کے آسرے پر زمین بیچ کر جمیل سومرو کی انتخابی مہم چلائی ہے۔
جمیل سومرو کے کچھ دوستوں کے بقول ان کا پیپلز پارٹی سے تعلق کافی پرانا ہے لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ جمیل سومرو جماعت میں کسی یونین کونسل، تحصیل، ضلع، ڈویژن یا صوبائی تنظیم کے عہدیدار کب رہے ہیں؟ ہمارے جیالے دوست ذوالفقار قادری کسی زمانے میں جمیل سومرو کے بھی دوست رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ جمیل سومرو کامریڈ احمد علی سومرو مرحوم کے بندے تھے۔ احمد علی سومرو وہ جیالے تھے جو 1978ء میں شاگرد یونین کے انتخابات میں ڈگری کالج لاڑکانہ کے صدر بن گئے۔ جمیل سومرو بعد میں سندھ یونیورسٹی میں آگئے مگر ان کے پاس سندھ پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن (سپاف) کا کوئی عہدا نہیں تھا اور وہ محض کارکن کہلائے جاتے تھے۔
جنرل ضیاالحق کے دور 1985ء میں جب وڈیرے، سردار، ملک، نواب سب پیپلز پارٹی سے منہ موڑنے لگے تو احمد علی سومرو کے ساتھ جمیل سومرو بھی سپاف چھوڑ کر ممتاز بھٹو کی نئی پارٹی سندھی، بلوچ پشتون فرنٹ میں چلے گئے۔ کچھ عرصے بعد ممتاز بھٹو کی جماعت کے شاگرد تنظیم سندھ نیشنل اسٹوڈنٹ فرنٹ بنی جس کے صدر ثمر علی شاہ بنے اور جمیل سومرو سیکریٹری جنرل کے عہدے پر براجمان ہوئے۔ کچھ ہی وقت میں جمیل سومرو اسٹوڈنٹ ونگ کے صدر بن گئے۔
اس دور کے ایک سرگرم شاگرد کارکن کا تو کہنا ہے کہ پرانے سیاسی ورکر ثمر علی شاہ اور ممتاز بھٹو کے بیچ غلط فہمی پیدا کرنے والا کوئی اور نہیں جمیل سومرو تھا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کچھ عرصے بعد ثمر علی شاہ آوٹ ہوگئے اور جمیل سومرو اسٹوٖڈنٹ ونگ کے صدر بن گئے۔
10 برس بعد یعنی 1995ء میں جمیل سومرو پھر احمد علی سومرو کے ساتھ پیپلز پارٹی میں واپس آگئے۔ کراچی کے کچھ سیاسی صحافتی حلقوں کی معرفت کے سبب انہیں بلاول ہاؤس تک رسائی مل گئی۔ ان کی ڈیوٹی میں یہ شامل تھا کہ وہ بلاول ہاؤس میں تمام اخبارات کی کٹنگز کی ایک فائل بنائیں۔ وہ فائل بینظیر بھٹو تک جاتی تھی۔ پھر بعد میں جمیل سومرو سندھی میڈیا کے حوالے سے کوآرڈینیٹر کم مانیٹر انچارج بن گئے۔ کئی لوگ سمجھتے ہیں کہ بلاول بھٹو کی سیاسی تربیت جمیل سومرو کے سپرد کردی گئی ہے لیکن ایسی کوئی بات نہیں۔ جمیل سومرو کی اس وقت ڈیوٹی فقط بلاول بھٹو کی تقریر یا پریس کانفرنس کے دوران ان کے پیچھے سائے کی طرح کھڑا ہونا ہے۔ مجھے جمیل سومرو کے ایک جاننے والے نے بتایا کہ اب بھی بلاول ہاؤس سے ان کو تنخواہ ملتی ہے۔
پیپلز پارٹی کو شکست آخر کیوں ہوئی؟
اب آتے ہیں اس معاملے کی طرف کہ لاڑکانہ میں پیپلز پارٹی کی شکست آخر کیسے ہوئی؟ اس کے کئی اسباب و محرکات ہیں۔ سب سے بڑا سبب یہ کہ پی ایس 11 کے لیے پیپلز پارٹی نے مناسب امیدوار نامزد نہیں کیا۔ امیدوار کے لیے یہ صرف ضروری ہونا کافی نہیں کہ اس کا ڈومیسائل انتخابی حلقے کا ہو، بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے حلقے میں لوگوں کے درمیان پایا جاتا ہو۔
ایسا لگتا ہے کہ امیدوار کے انتخاب سے متعلق پیپلز پارٹی نے فیصلہ عجلت میں کیا ہے یا پھر مقامی سیاست میں اندرونی تنازعات کے باعث کسی امیدوار پر اتفاق نہ ہونے کی صورت میں کمزور گھوڑا میدان میں اتار دیا گیا۔ حالانکہ اب وہ زمانہ تو رہا نہیں کہ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر لوگ کھمبے کو بھی ووٹ کردیں گے۔
اس مرتبہ جمیل سومرو پیپلز پارٹی کا کھمبا تھا لیکن وہ نتیجے کے دن گرگیا۔ اس بار پیپلز پارٹی کی شکست پر حیرت اس لیے بھی ہورہی ہے کہ یہ ضمنی انتخابات تھے۔ عمومی طور پر مقامی لوگ ضمنی انتخابات میں حکمران پارٹی کے امیدوار کو جتوانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ان کے علاقے میں کام ہوتے رہیں۔ پھر حکمران جماعت بھی اپنے پتے چلاتی ہے، مقامی انتظامیہ ان کے ہاتھ میں ہوتی ہے، لیکن اس بار تو پیپلز پارٹی ہر طرف سے خالی ہاتھ رہی۔
یہ انتخاب عام انتخابات سے اس لیے بھی مختلف تھے کہ پارٹی چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے پورا وقت اس حلقے اور شہر کو دیا۔ جلسے، مہم، کارنر میٹنگز سب کچھ کیا لیکن نتیجہ صفر رہا، اور تو اور بی بی آصفہ بھٹو زرداری بھی اسی حلقے کے گھر گھر میں اپنے بھائی کے پولیٹیکل سیکرٹری کے لیے ووٹ مانگتی رہیں۔
پیپلز پارٹی کو اپنا گھر بھی صاف رکھنا چاہیے کیونکہ اندر سے جو آوازیں آرہی ہیں وہ اس قسم کی ہیں کہ گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے۔ ہمارے انتخابی نظام میں ذات برادری کا بڑا اثر و رسوخ ہوتا ہے۔ ہم کوئی اتنے جمہوری نہیں ہیں کہ اس اثر و رسوخ سے نکل سکیں۔ اس شکست کا ایک سبب لاڑکانہ میں پارٹی کی دھڑا بندی، گروپ بندی یا جو کچھ کہہ لیں وہ موجود ہے۔
لاڑکانہ شہر کی صورتحال خراب ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا لاڑکانہ کو پیرس بنانے کا وعدہ تو 50 سال بعد بھی پورا نہیں ہوسکا، لیکن افسوس کہ یہ ایک ایسا عام شہر بھی نہ بن سکا جہاں انسان سکون سے زندگی گزار سکے۔ ترقیاتی کام نہ ہونے کہ وجہ سے لاڑکانہ ڈویژن میں ایک نہیں کئی موہن جو دڑو بن چکے ہیں۔
بھٹوز کی جگہ زرداری خاندان کی سیاسی وراثت پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں لیکن یہ اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ بھٹوز عوام سے رابطے میں ہوتے تھے، لوگوں کو پہچانتے تھے، لاڑکانہ نے پیپلز پارٹی کو اپنا خاندان سمجھا تھا لیکن نئی قیادت ان سے اجنبیوں کی طرح پیش آتی ہے۔ نئے حکمرانوں کا تکبر اور غرور مقامی لوگوں کو پسند نہیں، پیپلز پارٹی نے عوام کی جگہ ان سرداروں، جاگیرداروں اور وڈیروں کو دے دی ہے جن کی کوشش ہوتی ہے یہ عام لوگ بس ہماری غلامی کریں۔
اس ضمنی انتخاب میں پیپلز پارٹی کے مقابلے میں باقی تمام جماعتوں کا ایک اتحاد تھا اور اس میں بھی اہم کردار جمعیت علمائے اسلام (ف) کا تھا جس کا ووٹ بینک کسی بھی امیدوار کی ہار جیت کا فیصلہ کرسکتا ہے۔
اس حوالے سے نثار کھوڑو کو ٹاسک دیا گیا تھا لیکن وہ کامیاب نہیں ہوسکے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ نثار کھوڑو یہ سیٹ کسی اپنے بندے کو دلانا چاہتے تھے، اور جب ایسا نہیں ہوا تو وہ کسی حد تک پیچھے ہٹ گئے۔
پیپلز پارٹی نے اس انتخاب کو جیتنے کے لیے مقامی مگسی، کھوسہ، چانڈیا، انڑ، سیال، بگھیو اور کئی برادری سرداروں کو استعمال کیا، کہیں سے پیسے چلنے کی بھی بات ہو رہی ہے، لیکن اس کی تصدیق نہیں ہوئی۔ مگر جو بنیادی کام یعنی عوام کی خدمت کرنی تھی، پیپلز پارٹی اس میں پیچھے رہ گئی اور نتیجہ شکست کی صورت سامنے آیا۔
پیپلز پارٹی کے لیے یہ ضمنی انتخاب ایک ٹیسٹ کیس تھا اگر اسی طرح کے فیصلے ایسی ہی عجلت میں کیے جاتے رہے تو بہتر ہے کہ پیپلز پارٹی قبل از وقت انتخاب کا مطالبہ نہ ہی کرے، کیونکہ اس ٹیسٹ کیس میں شکست جمیل سومرو کو نہیں بلکہ نانا اور ماں کے شہر سے ان کے وارث بلاول بھٹو کو ہوئی ہے۔
تبصرے (6) بند ہیں