پشاور ہائی کورٹ: خیبرپختونخوا میں حراستی مراکز غیر قانونی قرار
پشاور ہائی کورٹ (پی ایچ سی) بینچ نے سابق وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقے (فاٹا) اور صوبے کے زیرانتظام قبائلی علاقے(پاٹا) کے صوبہ خیبرپختونخوا میں انضمام کے بعد بھی حراستی مراکز فعال ہونے کو غیر آئینی قرار دے دیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل بینچ نے صوبے کے انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) کو 3 روز کے اندر ان حراستی مراکز کا انتظام سنبھالنے کی ہدایت بھی کردی۔
اس کے علاوہ عدالت نے آئی جی پی کو یہ حکم بھی دیا کہ زیر حراست ہر شخص کے کیس کی جانچ پڑتال کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے اور جن کے خلاف کوئی کیس نہیں انہیں رہا کردینا چاہیے جبکہ جن کے خلاف کیس ہیں انہیں عام عدالتوں میں بھجوانا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: قیدیوں کی حراست غیر قانونی ہے: چیف جسٹس
واضح رہے کہ یہ مذکورہ درخواست ان حراستی مراکز میں موجود 2 قیدیوں کی جانب سے ایڈووکیٹ شبیر حسین گیگیانی نے دائر کی تھی، جس میں کے پی ایکشن آرڈیننس 2019، کے پی سابق فاٹا میں جاری قوانین ایکٹ 2019 اور کے پی سابق پاٹا میں جاری قوانین ایکٹ 2018 کو چیلنج کیا گیا تھا۔
درخواست میں انہوں نے استدعا کی تھی کہ 2011 کے قوعد و ضوابط کے تحت قائم کردہ تمام حراستی مراکز کو غیر آئینی قرار دیا جائے اور قانون کے مطابق مقدمہ چلانے کے لیے تمام قیدیوں کو متعلقہ عدالتوں کے حوالے کیا جائے۔
خیال رہے کہ 20 جولائی 2011 کو اس وقت کے صوبائی وزیر داخلہ نے ایک حکم نامہ جاری کیا تھا جس کے تحت ایسے 9 مراکز جہاں ہزاروں کی تعداد میں مشتبہ عسکریت پسندوں کو قید کیا گیا تھا وہ صوبے کے حراستی مراکز قرار پائے تھے۔
مزید پڑھیں: 'طالبان قیدیوں کے حقائق سے وزیر آگاہ نہیں'
اسی قسم کا ایک حکم نامہ 12 اگست 2011 کو ایڈیشنل چیف سیکریٹری فاٹا نے جاری کیا تھا جس کے تحت تقریباً 34 حراستی مراکز نوٹیفائیڈ کیے تھے۔
اس حکم نامے سے قبائلی علاقوں کے ساتوں اضلاع میں موجودفرنٹیئر کور اور پولیٹکل لاک اپس حراستی مراکز بن گئے تھے۔
عدالت میں وکیل شبیر حسین گگیانی کا موقف تھا کہ آئین میں کی گئی 25ویں ترمیم کے بعد سے قبائلی اضلاع کے عوام کے ساتھ ملک اور صوبے کے دیگر عوام سے مختلف رویہ نہیں رکھا جاسکتا۔