شام میں عسکری خلا کو پر کرنے کیلئے روسی افواج تعینات
روس نے شام کے شمالی علاقوں میں امریکا کی جانب سے چھوڑے گئے علاقوں میں ایڈوانسنگ سیریئن گورنمنٹ فورسز اور ترکی کے دستوں کو علیحدہ رکھنے کے لیے اپنی فوج تعینات کرنی شروع کردی ہیں۔
ڈان اخبار میں شائع ہونے والی امریکی خبررساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ‘ پریس کی رپورٹ کے مطابق مغربی اتحادیوں کی جانب سے ترکی کے حملے کی مذمت کے باعث نیٹو اور ترکی کے دستوں کے مابین کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔
چنانچہ اب کرد جنگجنوؤں کے خلاف حملے کے ساتویں روز ہزاروں افراد اپنے گھروں سے بے گھر ہوچکے ہیں جبکہ شمالی شام کی 8 سالہ جنگ میں نیا موڑ آچکا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ترک حملوں کا مقابلہ کرنے کیلئے شام نے شمالی حصے میں فوج تعینات کردی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے فوج کے انخلا کے اعلان کے بعد روس نے طاقت کا توازن برقرار رکھنے کے لیے فوری طور پر اپنے کردار کو مزید وسعت دے دی۔
دوسری جانب نئے محافظ کی متلاشی کرد انتظامیہ نے روسی حمایت یافتہ شامی حکومت کے صدر بشارالاسد کے ساتھ نیا معاہدہ کیا جن کی افواج نے کردوں کے زیر انتظام علاقوں میں انہیں تحفظ دینے کے لیے داخل ہونا شروع کردیا تھا۔
روسی صحافی کی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ شامی علاقے ممبیج کے ایک قصبے میں شامی فوج جھنڈے لہراتے ہوئے داخل ہوئیں اور امریکی فوج کی چھوڑی گئی چوکی سنبھال لی۔
مزید پڑھیں: شام میں کرد ٹھکانوں پر حملے، امریکا نے ترکی پر پابندیاں لگادیں
اس ضمن میں امریکی فوج کے ترجمان کرنل مائیلز بی کیگنز نے امریکی افواج کے انخلا کی تصدیق کی اور اس دوران محفوظ انخلا کو یقینی بنانے کے لیے ترک اور روسیوں سے رابطہ برقرار رکھا گیا۔
دوسری جانب ماسکو کے سفیر الیگزینڈر لیورینتے کا کہنا تھا کہ ’ترک افواج اور شامی سرکاری افواج کے مابین لڑائی میں کسی کو دلچسپی نہیں اور نہ ہی روس اس کی اجازت دے گا۔
خیال رہے کہ روس دہائیوں سے شامی صدر کا قریبی اتحادی ہے جو اس تنازع میں 2015 میں شامل ہوا تھا جس کے بعد روسی فوج نے بڑی تعداد میں اسلحہ دمشق پہنچایا اور ہزاروں فوجی اہلکاروں کو تربیت دینے کے ساتھ ساتھ شامی فوج میں اہم عہدوں پر اپنے مشیر تعینات کیے۔