'جب ہولی وڈ کی تشدد پر مبنی فلمز ریلیز ہوسکتی ہیں تو دُرج کیوں نہیں؟'
پاکستانی اداکارہ و فلم ساز شمعون عباسی کی فلم 'دُرج' کو پاکستان کے سینما گھروں میں نمائش کی اجازت نہ ملنے پر اداکارہ صنم سعید نے سوال اٹھادیا۔
اداکارہ نے اپنی ٹوئٹ میں سوال کیا کہ جب ہولی وڈ کی تشدد اور تاریک عنوانات پر مبنی فلمز سینما گھروں میں دکھائی جاسکتی ہیں تو درج جیسی منفرد فلم پر پابندی کیوں عائد کی گئی؟
’درج‘ کی کہانی اگرچہ آدم خور انسانوں کے گرد گھومتی ہے لیکن فلم میں ایک ساتھ دوسری کہانیاں بھی دکھائی جائیں گی لیکن تمام کہانیوں کا آپس میں تعلق ہوتا ہے۔
فلم کے جاری کیے گئے ٹریلر میں جہاں ایک خاتون کو اپنے لاپتہ شوہر کو تلاش کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے وہیں یہ بھی عندیہ دیا گیا ہے کہ ان کے لاپتہ شوہر کو قتل کرنے کے بعد ان کی لاش قبر سے نکال کر غائب کردی جاتی ہے اور شوہر کو تلاش کرتی خاتون کو کئی حقائق کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس فلم کی ہدایات شمعون عباسی نے کی ہے، جبکہ انہوں نے فلم میں مرکزی کردار بھی نبھایا ہے۔
مزید پڑھیں: آدم خوروں پر بنی فلم ’درج‘ کو نمائش کی اجازت نہ مل سکی
واضح رہے کہ درج کو اب تک پاکستان میں تو نمائش کی اجازت نہیں ملی، البتہ فلم کو جلد متحدہ عرب امارات، امریکا، برطانیہ و یورپ کے دیگر ممالک میں ریلیز کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ اپنی فلم پر پابندی کے حوالے سے شمعون عباسی نے ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ابتدائی طور پر سندھ اور پنجاب فلم سینسر بورڈز نے ان کی فلم کو نمائش کی اجازت دی تھی، تاہم مرکزی فلم سینسر بورڈ کی جانب سے اجازت نہ دینے کے بعد دونوں صوبائی بورڈز نے بھی اجازت منسوخ کردی۔
ان کا کہنا تھا کہ انہیں فلم کو نمائش کی اجازت نہ دینے کی کوئی معقول وجہ نہیں بتائی گئی اور وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آخر فلم کو کس اعتراض پر روکا گیا؟
شمعون عباسی کے مطابق ’درج‘ پنجاب کے 2 بھائیوں کی سچی کہانی سے متاثر ہوکر بنائی گئی فلم ہے اور اس کی کہانی تحقیق کے بعد لکھی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: لاپتہ ہونے والے شوہر کو ڈھونڈتی بیوی کی جنگ کی کہانی ’درج‘
فلم کی کہانی قبروں سے 100 مردے نکال کر کھانے والے افراد کے گرد گھومتی ہے اور اس میں کوئی بھی ایسا سین نہیں جس کی بنیاد پر فلم کو نمائش سے روکا جائے۔
شمعون عباسی نے یہ بھی تسلیم کیا تھا کہ ان کے پاس فلم سینسر بورڈز کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا اختیار ہے اور وہ اس کو استعمال کریں گے۔