’تشدد سے ہلاک‘ ہونے والے صلاح الدین کے اہلِ خانہ نے پولیس اہلکاروں کو معاف کردیا
گوجرانوالہ: رحیم یارخان پولیس کی حراست میں ہلاک ہونے والے مبینہ اے ٹی ایم چور صلاح الدین ایوبی کے اہلِ خانہ نے مقدمے میں نامزد پولیس اہلکاروں کو معاف کردیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ مقدمے میں اسٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او)، انسپکٹر اور کچھ کانسٹیبلز کو نامزد کیا گیا تھا جنہوں نے عبوری ضمانت حاصل کرلی تھی۔
اس معاملے پر ملک بھر سے برہمی کا اظہار کیا گیا تھا جبکہ ذرائع ابلاغ نے بھی اس پر خاص توجہ دی تھی جس کے بعد حکومت، رحیم یار خان کے ڈپٹی پولیس افسر (ڈی پی او) اور اس وقت کے قائم مقام ڈی پی او کو بھی عہدے سے ہٹانے پر مجبور ہوگئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: صلاح الدین پر موت سے قبل بہیمانہ تشدد کی تصدیق
ادھر ذرائع کا کہنا تھا کہ پولیس اہلکاروں کو معاف کرنے کے بدلے متوفی صلاح الدین کے والد نے حکومت سے اپنے گاؤں گورالی میں ایک سڑک، گیس فراہمی کا نیٹ ورک اور اسکول تعمیر کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو ذیشان حنیف کی جانب سے گیس اور سڑک کے منصوبوں پر عملدرآمد کی یقین دہانی پر صلاح الدین ایوبی کے والد افضال نے گاؤں کی مسجد میں ہونے والی ایک تقریب میں پولیس اہلکاروں کو معاف کردیا۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ افضال کو ’اللہ کے نام پر‘ ملزمان کو معاف کرنے پر قائل کرنے کے لیے مقامی سیاستدانوں نے اہم کردار ادا کیا۔
مزید پڑھیں: پولیس حراست میں اے ٹی ایم کارڈ چور کی ہلاکت، مقدمے میں ایس ایچ او نامزد
اس ضمن میں جب ایڈیشنل آئی جی پنجاب سے پوچھا گیا کہ اس قسم کے گھناؤنے جرائم میں ریاست کے فریق بننے کے بعد کیا ملزمان کو ریلیف مل سکتا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ انہیں ایف آئی آر میں ریلیف مل سکتا ہے البتہ ان کی سروس کا فیصلہ آئی جی پنجاب کریں گے۔
صلاح الدین تشدد کیس
یاد رہے کہ 2 ماہ قبل سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں ایک شخص کو فیصل آباد میں ایک اے ٹی ایم کو توڑنے کے بعد اس میں سے مبینہ طور پر کارڈ چوری کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔
اسی دوران اس شخص نے بوتھ کے کنارے پر لگے کیمرے اور اے ٹی ایم مشین میں نصب کیمرے کو دیکھتے ہوئے اس کے سامنے عجیب حرکتیں بھی کی تھیں۔
بعد ازاں یہ شخص 31 اگست کو ،مبینہ طور پر رحیم یار خان میں شاہی روڈ پر قائم حبیب بینک لمیٹڈ کے اے ٹی ایم بوتھ میں مشین کے بیرونی حصے کو توڑنے میں مصروف تھا جب اسے دیگر صارفین نے رنگے ہاتھوں پکڑ کر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔
جس کے چند روز بعد ہی ضلعی پولیس افسر کے ترجمان ذیشان رندھاوا کا دعویٰ سامنے آیا تھا کہ صلاح الدین ایوبی لاک اپ میں عجیب حرکتیں کررہے تھے تو 'اچانک ان کی طبیعت خراب' ہوگئی اور بعدازاں ان کی موت واقع ہوئی۔
تاہم ملزم کے لواحقین کی جانب سے پولیس پر صلاح الدین کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا کر دوران حراست قتل کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
بعد ازں سوشل میڈیا پر صلاح الدین کی نعش پر تشدد کی مبینہ تصاویر بھی وائرل ہوگئی تھیں جس سے ملک بھر میں غم و غصے کی شدید لہر دوڑ گئی تھی۔
اس پر وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے صلاح الدین ایوبی کی موت کی جوڈیشل انکوائری کا حکم دیا تھا اور صلاح الدین کے والد محمد افضال کی درخواست پر اسٹیشن ہاؤس افسر محمود الحسن، تفتیشی افسر سب انسپکٹر شفاعت علی اور اسسٹنٹ سب انسپکٹر (اے ایس آئی) مطلوب حسن کے خلاف قتل کا مقدمہ درج ہوا تھا۔
اس کے بعد ڈی پی او رحیم یار خان عمر فاروق سلامت کو معطل کرکے انویسٹی گیشن سپرنٹنڈنٹ پولیس حبیب اللہ خان کو ڈی پی او آفس کا اضافی چارج دیا گیا تھا۔
تاہم متاثرہ شخص کے والد نے وزیراعلیٰ پنجاب سے شکایت کی تھی کہ متعلقہ افسر مبینہ طور پر کیس میں اثر انداز ہورہے، جس پر ان کا بھی تبادلہ کردیا گیا تھا۔
بعدازاں پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کی جانب سے سامنے آنے والی رپورٹ میں اس بات کی تصدیق ہوگئی تھی کہ ملزم پر موت سے قبل بہیمانہ تشدد کیا گیا تھا۔
حتمی رپورٹ کے مطابق فرانزک ٹوکسی کولوجی اور فرانزک ہسٹو پیتھولوجی رپورٹس کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا تھا کہ زخم موت سے قبل آئے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور ممکنہ طور پر اسی کے نتیجے میں موت واقع ہوئی۔