چائے پینا عادت بنانے سے دماغ پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
چائے پینا عادت بنانے کو کچھ لوگ جسم کے لیے فائدہ مند جبکہ کچھ نقصان دہ بھی سمجھتے ہیں۔
اور اب سائنس نے انکشاف کیا ہے کہ اس گرم مشروب کو عادت بنالینا دماغی صحت کے لیے فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے۔
طبی جریدے امپیکٹ جرنلز ایل ایل سی میں شائع تحقیق کے دوران تحقیقی ٹیم نے چائے پینے کو عادت بنانے سے دماغی ساخت پر مرتب ہونے والے اثرات کا تجزیہ کیا اور اس حوالے سے رضاکاروں کے ایک گروپ سے گرم مشروب پینے کی عادات پر سوالنامے بھروائے۔
اس کے بعد رضاکاروں کے گروپ 2 گروپس میں تقسیم کردیا گیا یعنی ایک جو چائے پینے کا عادی تھا جبکہ دوسرا چائے سے دور رہنے والے افراد پر مشتمل تھا۔
ان افراد کے دماغوں کا ایم آر آئی اسکین کرایا گیا تاکہ دماغی جائزہ لیا جاسکے۔
نتائج سے معلوم ہوا کہ چائے پینے کے شوقین افراد کے دماغوں کے کنکٹویٹی نیٹ ورک میں hemispheric asymmetry کی سطح کم تھی، ماضی میں تحقیقی رپورٹس میں اس سطح میں اضافے کو دماغی عمر میں تیزی سے اضافے سے جوڑا گیا تھا۔
اسی طرح چائے پینے والے افراد کے دماغوں کا ڈیفالٹ موڈ نیٹ ورک کنکشن زیادہ مضبوط تھا، یہ دماغی کا وہ حصہ ہے جو معلومات کا تجزیہ کرتا ہے جیسے مستقبل کی منصوبہ بندی اور دیگر کے بارے میں سوچ بچار وغیرہ۔
محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ چائے پینے سے دماغی ساکت میں بہتری آتی ہے جس سے دماغ زیادہ بہتر کام کرنے لگتا ہے جبکہ عمر کے دماغ پر مرتب ہونے والے اثرات کی رفتار بھی سست ہوجاتی ہے۔
یہ ذہن میں رہے کہ یہ تحقیق چھوٹے پیمانے پر ہوئی تھی یعنی 15 چائے پینے والے اور 21 اس مشروب سے دور رہنے والے افراد پر، تو اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
مگر گزشتہ ماہ سنگاپور نیشنل یونیورسٹی کی تحقیق میں بھی دریافت کیا گیا تھا کہ چائے پینے کا معمول اس مشروب سے دور رہنے والے افراد کے مقابلے میں دماغی حصوں کو زیادہ بہتر طریقے سے منظم رکھنے اور دماغی افعال صحت مند بنانے میں مدد دیتا ہے۔
اس تحقیق کے دوران 36 افراد کے دماغی ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا اور محققین کے مطابق نتائج سے چائے پینے کی عادت کے دماغی ساخت پر مثبت اثرات کے اولین شواہد ملتے ہیں۔
اس تحقیق کے لیے سنگاپور کی یونیورسٹی نے برطانیہ کی Essex اور کیمبرج یونیورسٹی کے ساتھ مل کر کام کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ چائے پینا عادت بنالینے سے عمر بڑھنے سے دماغی سرگرمیوں آنے والی تنزلی کی روک تھام ممکن ہے۔