کے پی اسمبلی میں خواتین کے تحفظ حق جائیداد کا بل منظور
خیبرپختونخوا (کے پی) اسمبلی نے خواتین کو وراثتی حق کے تحفظ اور نادار افراد کو مفت قانونی معاونت فراہم کرنے کے لیے دو الگ الگ بل منظور کر لیے۔
صوبائی اسمبلی میں خیبر پختونخوا انفورسمنٹ آف ویمن پراپرٹی رائٹس ایکٹ 2019 اور نادار افراد کے لیے لیگل ایڈ ایکٹ 2019 کے بل منظور کیے گئے۔
ویمن پراپرٹی رائٹس ایکٹ کے تحت خواتین کو جائیداد کی ملکیت کا حق ہوگا اور یہ قانون خواتین کو اس حوالے سے ہراساں کرنے، دباؤ ڈالنے، فراڈ یا جبر اور اس طرح کے دیگر اقدامات کے ذریعے خلاف ورزی سے روکنے کو یقینی بناتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:خیبر پختونخوا اسمبلی میں جہیز پر پابندی کا بل پیش
صوبے بھر میں نافذ ہونے والے اس نئے قانون کے مطابق خواتین کی وراثتی ملکیت پر قابض متعلقہ حق دار کو منافع دینے کا پابند ہوگا۔
ویمن پراپرٹی رائٹس بل کے تحت صوبائی خاتون محتسب کے اختیارات میں اضافہ کردیا گیا ہے جو خواتین کو وراثتی حق دلانے میں ڈپٹی کمشنر سے لے کر صوبے کے دیگر اعلیٰ افسران کو احکامات دینے کی مجاذ ہوگی۔
وراثت حقوق سے متعلق بل میں عوام کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کسی بھی دیگر شہری کے لیے صوبائی محتسب کے پاس شکایت کر سکتا ہے۔
کے پی اسمبلی میں صوبے کے غریب شہریوں اور باالخصوص خواتین کو مفت قانونی معاونت دینے سے متعلق لیگل ایڈ ایجنسی بل بھی منظور کرلیا گیا۔
لیگل ایڈ قانون کے تحت نادار افراد اور خواتین کو جائیداد، جہیز، طلاق اور خاندانی جھگڑوں سمیت دیگر مسائل میں مفت قانونی معاونت دی جائے گی۔
مزید پڑھیں:خیبر پختونخوا اسمبلی میں 'عورت مارچ' کےخلاف مذمتی قرارداد منظور
صوبائی اسمبلی سے منظور شدہ بل کے مطابق خواتین کو دیوانی اور فوجداری دونوں مقدمات میں وکلا کی خدمات مفت فراہم کی جائیں گی اور مقدمات کی پیروی کی استطاعت نہ رکھنے والے مردوں کو صرف سول مقدمات میں وکلا کی خدمات حاصل ہوں گی۔
صوبائی وزیر قانون سلطان محمد خان نے ڈان نیوز کو بتایا کہ ویمن پراپرٹی رائٹس بل کے رولز میں وراثتی حق نہ دینے والوں کے خلاف سزائیں تجویز کی جا ئیں گی جبکہ لیگل ایڈ قانون کے تحت وکلا پر مشتمل پینل بنایا جائے گا جس سے خصوصی طور پر صوبے کے وہ خواتین جنہیں جائیداد کی حصولی اور دیگر خاندانی مسائل کا سامنا ہے، وہ مستفید ہوں گی۔
اسمبلی اجلاس میں گھریلو تشدد سے متعلق بل بھی پیش کیا گیا، جس میں اپوزیشن کی جانب سے دی گئی تجاویز اور ترامیم کا جائزہ لینے کے لیے بل کو سلیکٹ کمیٹی کے حوالے کردیا گیا۔