قوانین کی عدم موجودگی ساحلی سیاحت کو متاثر کرنے لگی
کراچی: رواں سال کے اوائل میں میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی (ایم ایس اے) کے افسران کی ایک اسپیڈ بوٹ جزیرہ چرنا (چرنا آئی لینڈ) کے قریب غوطہ خوروں کے ایک گروپ کے پاس پہنچی اور کہا کہ جو کر رہے ہیں اسے روک دیں۔
ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق ان کے دستاویزات کا سرسری جائزہ لینے کے بعد ان کے سامان کو ضبط کرلیا گیا اور غوطہ خوروں کو واپس جانے کا کہا گیا۔
دونوں فریقین کے درمیان لاتعداد ملاقاتوں نے ایک چیز واضح کردی تھی: یہی کہ 1970 کی دہائی کے آخر سے ہی لوگ کھلے سمندر میں تفریحی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے تھے، تاہم پاکستان کے پاس ساحلی سیاحت کے لیے کوئی اصول، قوانین یا ریگولیٹری ادارے نہیں تھے۔
سمندر میں پیش آئے اس واقعے سے متعلق ایک غوطہ خور نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرف پر ڈان کو بتایا کہ عام طور پر جب غوطہ خوری یا اسنارکلنگ کے لیے جاتے تھے تو ان کے پاس این او سی ہوتا تھا لیکن اس مرتبہ کچھ مختلف تھا۔
مزید پڑھیں: کراچی کے ساحل تباہ کرنے والے آخر کب گرفت میں آئیں گے؟
انہوں نے 'ہمیں بندوق دکھائی اور این او سی کا کہا، ہمارے پاس تمام دستاویزات تھے کیونکہ ہم روزانہ یہ کام کرتے ہیں'
بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 'ہم جاننا چاہتے ہیں کہ اسے کس طریقے سے حل کیا جاسکتا ہے، جب ہم ایم ایس اے حکام سے ملے تو انہوں نے ہمیں کہا کہ وزارت دفاع سے این او سی حاصل کریں، پھر جب ہم ان کے پاس گئے تو انہوں نے ہمیں کہا کہ وہ ہماری مدد نہیں کرسکتے کیونکہ یہ تفریقی مقاصد کے لیے تھا اور یہ سیکیورٹی کے لیے خطرہ نہیں تھا، بعد ازاں ہم نے وزارت سمندری امور سے بھی رابطہ کیا'۔
اسی معاملے پر ایک اور غوطہ خور اور ماہر اسنارکلنگ نے دعویٰ کیا کہ یہ واقعہ کاروبار کے لیے ٹھیک نہیں۔
ساتھ ہی انہوں نے تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ 'اس وقت صورتحال بہت خراب ہے، کراچی میں صرف 2 ڈائوینگ (غوطہ خوری) کے اسکولز تھے جس میں سے ایک بند ہوگیا، وزیراعظم عمران خان سیاحت میں تیزی کی کیسے توقع کرسکتے ہیں جب ساحلی سیاحت کے لیے کوئی مینڈیٹ یا ریگولیٹری باڈی نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم صورتحال کو ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہے تھے، اسی سلسلے میں عہدیداروں کے ساتھ بیٹھے کہ اصول وغیرہ کا تعین کریں لیکن ہمیں نکال دیا گیا، بالآخر ہم میں سے ایک گروپ ایم ایس اے، فیڈریشن آف پاکستان، (محکمہ سیاحت) حکومت سندھ اور سندھ ٹورازم ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے خلاف درخواست دائر کرنے کے لیے اکٹھا ہوگیا۔
بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ عدالت کے ذریعے ہم اس معاملے پر وضاحت یا کم از کم ساحلی سیاحت کے لیے مینڈیٹ حاصل کرسکتے ہیں، ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ اس معاملے پر اگلی سماعت 15 اکتوبر کو شیڈول ہے۔
پرویز صادق پہلی مرتبہ 1978 میں گہرے سمندر میں غوطہ خوری کے لیے گئے تھے اور انہوں نے اسے پسند کیا تھا، ان کا تجربہ کافی اچھا رہا تھا اور وہ واپس چرنا جاتے رہنا چاہتے تھے۔
انہوں نے ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ایک دہائی یا اس سے زائد عرصے سے قبل یہ تفریحی سرگرمی اشرافیہ کے لیے محدود تھی۔ اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عام فرد (کامنز) کے قانون کے مطابق ثقافتی اور قدرتی وسائل تک معاشرے کے تمام افراد کی رسائی ہونی چاہیے، 'اس کے مطابق ہمیں سمندر تک بھی رسائی ہونی چاہیے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'آپ دیکھیں کہ کینپ کی وجہ سے پیراڈائز پوائنٹ کے ساتھ کیا ہوا ہے، میں نے وہاں سے غوطہ خوری شروع کی تھی لیکن اب یہ تمام مقامات ناقابل رسائل ہیں، اگر آپ ان سے سوال پوچھیں تو وہ کہتے ہیں کہ یہ سیکیورٹی کا معاملہ ہے'
دوسری جانب ایم ایس اے کا دعویٰ ہے کہ اس کا تعلق حفاظت سے متعلق احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کو یقینی بنانے سے ہے۔ ان کے ترجمان کے مطابق اگر شہریوں کی زندگی خطرے میں ہے تو میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی فوری کارروائی کرے گی۔
یہ بھی پڑھیں: سال کے 12 ماہ، پاکستان میں سیاحت کیلئے کب،کہاں جاسکتے ہیں؟
ویسٹ ہارف میں ایم ایس اے ہیڈکوارٹرز میں ڈان سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ 'ہم سمندروں کی پولیس ہیں، اگر ہمیں یہ محسوس ہوگا کہ طریقہ کار پر عمل نہیں ہورہا تو ہم اس معاملے کو اپنے ہاتھوں میں لے لیں گے، ہم غوطہ خوری یا اسنارکلنگ یا کسی اور چیز کے خلاف نہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک صحت مند سرگرمی ہے لیکن جانچ اور توازن ضروری ہے۔
واضح رہے کہ میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی پاکستان نیوی اور وزارت دفاع کے ماتحت کام کرتی ہے اور اسے پاکستان کے تمام میری ٹائم زونز میں بین الاقوامی اور قومی قوانین پر عمل درآمد کرانے کا اختیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'ہمیں تمام کشتیوں اور ان کی رجسٹریشن کو چیک کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ کشتیاں اور جہاز صرف اسی مقصد کے لیے استعمال ہوسکتے جو دستاویزات میں لکھا ہے، ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ جب ماہی گیری کی کشتی پانی میں ہوتی ہے تو ہمارے پاس عملے اور اس کے ساتھ لوگوں کی قومی شناختی کارڈ کے نمبرز کے ہمراہ فہرست ہوتی ہے۔
بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہماری تحقیق کے مطابق ان ڈائیونگ مہمات کو کشتی کے سفر کے لیے خطوط جاری کیے گئے تھے، غوطہ خوری یا اسنارکلنگ اور کسی دوسری تفریحی سرگرمیوں کے لیے نہیں۔
تبصرے (1) بند ہیں