• KHI: Fajr 5:37am Sunrise 6:57am
  • LHR: Fajr 5:15am Sunrise 6:41am
  • ISB: Fajr 5:23am Sunrise 6:51am
  • KHI: Fajr 5:37am Sunrise 6:57am
  • LHR: Fajr 5:15am Sunrise 6:41am
  • ISB: Fajr 5:23am Sunrise 6:51am

امارات نے رہائشی اجازت نامہ حاصل کرنے والے پاکستانی شہریوں کا ڈیٹا فراہم کردیا

شائع October 12, 2019
پاکستانی شہریوں کا ڈیٹا دبئی میں 8 سے 10 اکتوبر کےدوران ہونے والے 3 روزہ اجلاس کے موقع پر حاصل کیا گیا— فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستانی شہریوں کا ڈیٹا دبئی میں 8 سے 10 اکتوبر کےدوران ہونے والے 3 روزہ اجلاس کے موقع پر حاصل کیا گیا— فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد : فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے غیرقانونی دولت چھپانے کےلیے متحدہ عرب امارات میں سرمایہ کاری کے ذریعے رہائش حاصل کرنے والے پاکستانی شہریوں کا ڈیٹا حاصل کرنے کا دعویٰ کردیا۔

ڈان اخبار کی ر پورٹ کے مطابق دبئی لینڈ ڈپارٹمنٹ (ڈی ایل ڈی) سے پاکستانی شہریوں کا ڈیٹا دبئی میں 8 سے 10 اکتوبر کےدوران ہونے والے 3 روزہ اجلاس کے موقع پر حاصل کیا گیا۔

اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی سیکریٹری برائے بین الاقوامی ٹیکسز ساجدہ کوثر نے کی۔

اس حوالے سے باخبر ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ ایف بی آر کا انٹرنیشنل ٹیکسز ونگ ڈیٹا کی جانچ کررہا ہے اور درست رہائشی پتے اور شناخت معلوم کرنے کے بعد ان افراد کو ٹیکس ادائیگی کے لیے نوٹسز ارسال کیے جائیں گے۔

تاہم دبئی لینڈ ڈپارٹمنٹ ان پاکستانی شہریوں کا ڈیٹا فراہم کرے گا جنہوں نے غیرقانونی دولت چھپانے کی غرض سے اقامہ (ورک پرمٹ) حاصل کیا ہوا ہے۔

مزید پڑھیں: حکومت کو پاکستانیوں کے بیرون ملک اکاؤنٹس میں11 ارب ڈالر کی موجودگی کا یقین

واضح رہے کہ ایف بی آر نے 22 اگست کو متحدہ عرب امارات کو خط ارسال کیا تھا، جس میں اقامہ اور سرمایہ کاری کے ذریعے رہائش حاصل کرنے والے تمام پاکستانی شہریوں کی معلومات فراہم کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔

ذرائع نے بتایا کہ دبئی میں ہونے والی ملاقات متحدہ عرب امارات کے حکام کو بھیجے جانے والے خط کے تناظر میں ہوئی تھی۔

خیال رہے کہ متحدہ عرب امارات کا قانون ایک خاص حد تک سرمایہ کاری کی بنیاد پر غیر ملکیوں کو اقامہ حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

متحدہ عرب امارات کی جانب سے معلومات موصول ہوئیں کہ 3 ہزار 620 اکاؤنٹس یہاں کے ہیں جس کے بعد پاکستان میں اس معاملے کو اہمیت ملی۔

تاہم زیادہ بیلنس رکھنے والے اکاؤنس کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔

ایف بی آر میں موجود ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ ’ ہم نے اصل قابل کارروائی اعداد و شمار کے حصول کے لیے سارا ڈیٹا یو اے ای حکام کو واپس بھیج دیا ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: ایک سال میں 15 ارب ڈالر سے زائد رقم بیرون ملک منتقل کیے جانے کا انکشاف

اس سے قبل فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) سے متحدہ عرب امارات میں پاکستانی شہریوں کی سرمایہ کاری سے متعلق ڈیٹا حاصل کیا تھا لیکن صرف 20 سے 30 کیسز میں نوٹسز جاری کیے تھے اور 40 کروڑ روپے کی ریکوری کی تھی۔

واضح رہے کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی جانب سے دبئی جائیدادوں پر ازخود نوٹس لیے جانے کے بعد ان مقدمات کی پیروی کی گئی تھی۔

ان مقدمات میں وزیراعظم عمران خان کی بہن علیمہ خانم سے متعلق کیس بھی شامل تھا جنہوں نے متحدہ عرب امارات کی جائیداد چھپانے پر ٹیکسز اور جرمانے کی مد میں 2 کروڑ 94 لاکھ روپے ادا کیے تھے۔

ذرائع کے مطابق ایف بی آر کا انٹرنیشنل ٹیکسز ونگ ڈی ایل ڈی کی جانب سے فراہم کیے گئے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کرتا ہے اور ٹیکس چوری کرنے والے افراد کی شناخت میں چند روز لگیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس حوالے پاکستانی شہریوں کی کُل تعداد بھی ڈیٹا کے مکمل تجزیے کے بعد معلوم ہوسکے گی۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے چیئرمین شبر زیدی نے کہا تھا کہ دبئی لینڈ ڈپارٹمنٹ، ایف بی آر کو دبئی میں موجود پاکستانیوں کے اثاثوں کی تفصیلات فراہم کرے گا۔

چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کیے گئے ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ’فیڈرل بورڈ آف ریونیو حکام کی 9 اور 10 اکتوبر کو اثاثوں کے مالکان کی معلومات کے تبادلے سے متعلق متحدہ عرب امارات کے حکام سے ملاقات ہوئی'۔

شبر زیدی نے ٹوئٹ میں مزید کہا تھا کہ ’دبئی لینڈ ڈپارٹمنٹ فوری طور پر دبئی میں پاکستانیوں کے اثاثوں کی تفصیلات فراہم کرے گا اور اقامہ کے غلط استعمال سے بھی نمٹا جائے گا'۔

مزید پڑھیں: بیرون ملک بھیجی گئی رقم واپس لانے کا کوئی طریقہ نہیں، شبر زیدی

خیال رہے کہ 4 اکتوبر کو شبر زیدی نے معاشی خوشحالی کے لیے علاقائی استحکام کے موضوع پر اسلام آباد میں منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ گزشتہ 20 سال میں 6 ارب ڈالر بیرون ملک منتقل ہوئے اور یہ رقم بھی قانونی چینلز سے منتقل کی گئی۔

شبر زیدی نے کہا تھا کہ پاکستانیوں کے 100 ارب ڈالر ملک سے باہر ہونے کا تاثر بلکل غلط ہے جبکہ بیرون ملک بھیجی گئی رقم واپس پاکستان لانے کا کوئی طریقہ موجود نہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ پاکستانی اب بھی اپنا سرمایہ بیرون ملک بھیج رہے ہیں جس میں کرپشن کا پیسہ 15 سے 20 فیصد ہے۔

کارٹون

کارٹون : 26 نومبر 2024
کارٹون : 25 نومبر 2024