• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:33pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm

ملک بھر میں ڈینگی کے 25 ہزار سے زائد کیسز کی تصدیق

شائع October 11, 2019
اب تک ڈینگی کے نتیجے میں 42 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں— فائل  فوٹو: اے ایف پی
اب تک ڈینگی کے نتیجے میں 42 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں— فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: ملک بھر میں اب تک 25 ہزار سے زائد افراد میں ڈینگی کی تصدیق ہوچکی ہے جن میں سے دو تہائی کیسز پوٹھوہار خطے میں رپورٹ ہوئے جبکہ اس مرض کے نتیجے میں 42 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ملک میں ڈینگی کے بڑھتے ہوئے کیسز کے بعد 2011 کا ریکارڈ ٹوٹتا ہوا نظر آرہا ہے جب ملک میں 27 ہزار افراد اس مرض کا شکار ہوئے تھے۔

اس سال 2011 کے مقابلے میں ڈینگی سے متاثرہ افراد کی اموات میں کمی کا امکان ہے جبکہ 2011 میں اس مرض کے نتیجے میں 3 سو 70 افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

واضح رہے کہ اب تک ڈینگی کے نتیجے میں 42 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں اور ڈاکٹرز شرح اموات کی کمی کی وجہ علاج معالجے کی بہتر سہولیات کی دستیابی کو قرار دے رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: پنجاب: 24 گھنٹے میں مزید 218 افراد میں ڈینگی کی تصدیق

اس حوالے سے ڈان کو موصول سرکاری اعداد و شمار کے مطابق رواں برس ملک بھر میں ڈینگی کے 25 ہزار سے زائد کیسز کی تصدیق کی گئی، جن میں اسلام آباد سے 6 ہزار 5 سو 37 کیسز، پنجاب سے 5 ہزار 6 سو 42، سندھ سے 4 ہزار 4سو 3 ، خیبرپختونخوا سے 4 ہزار 2 سو 76 اور بلوچستان سے 2 ہزار 7 سو 50 کیسز کی تصدیق ہوئی۔

علاوہ ازیں ڈینگی کے باقی کیسز دیگر علاقوں سے رپورٹ ہوئے جن میں آزاد جموں و کشمیر اور قبائلی اضلاع شامل ہیں جبکہ دو تہائی کیسز پوٹھوہار کے علاقے سے بھی سامنے آئے ہیں۔

ڈینگی کے نتیجے میں سندھ میں 15، اسلام آباد میں 13، پنجاب میں 10، بلوچستان میں 3 اور آزاد جموں کشمیر میں ایک شخص جاں بحق ہوا۔

نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ میں ڈیزیز سرولینس ڈویژن کے سربراہ ڈاکٹر رانا صفدر نے کہا کہ بڑی تعداد میں مرض کی تصدیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب نگرانی اور آگاہی میں اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے ماضی کے مقابلے میں زیادہ مریض ڈینگی کی تشخیص کے لیے ٹیسٹ خود کرواتے ہیں۔

تاہم انہوں نے عوام کو نہ گھبرانے کی ہدایت کی کیونکہ 90 فیصد مریضوں کو علاج کی بھی ضرورت نہیں جبکہ ڈینگی سے متاثرہ زیادہ تر افراد ڈی ہائیڈریشن کی وجہ سے جاں بحق ہوئے ہیں۔

ڈینگی کی تاریخ سے متعلق بات کرتے ہوئے ڈاکٹر صفدر نے بتایا کہ ڈینگی مچھر 1994 میں ٹائروں کی کھیپ کے ساتھ پاکستان آیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ یہ وائرس 2005 میں کراچی سے ٹکرایا اور 2011 میں وبا کی صورت میں پھیلا جب 27 ہزار افراد اس مرض کا شکار ہوئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ملک بھر میں ڈینگی کے 12 ہزار کیسز کی تصدیق

ڈاکٹر رانا صفدر نے کہا کہ ’دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر ڈینگی کی وجہ موسمیاتی تبدیلی ہے، اس وقت 125 ممالک میں موجود آدھی سے زیادہ آبادی کو خطرہ ہے، عالمی ادارہ صحت نے 2019 کے آغاز میں ڈینگی کو عالمی سطح پر عوام کی صحت سے متعلق 10 بڑے خدشات میں شامل کیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ رواں سال 13 اگست تک فلپائن میں ڈینگی کے 2 لاکھ 92 ہزار 76 کیسز کی تصدیق اور ایک ہزار 84 اموات ہوئیں، 26 ستمبر تک ویتنام میں ایک لاکھ 24 ہزار 7 سو 51 کیسز رپورٹ ہوئے، 26 ستمبر تک ملائیشیا میں 98 ہزار ایک سو 84 کیسز، 10 ستمبر تک تھائی لینڈ میں 85 ہزار 5 سو 20 کیسز، 16 ستمبر تک بنگلہ دیش میں 81 ہزار 8 سو 39 کیسز کی تصدیق ہوئی۔

ڈاکٹر رانا صفدر نے بتایا کہ26 ستمبر تک سری لنکا میں ڈینگی کے 46 ہزار ایک سو 26، 26 ستمبر تک سنگاپور میں 12 ہزار 3 سو 71، بھوٹان میں 29 اگست تک 7 ہزار 6 سو 64 اور 4 ستمبر تک مالدیپ میں 3 ہزار 7 سو 6 کیسز رپورٹ ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ ’خطے کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان کو بھی 2019 میں ڈینگی کے پھیلاؤ میں اضافے کا سامنا ہے‘۔

اپنی بات جاری رکھتے انہوں نے کہا مچھر اپنی 20 روز کی زندگی میں 100 میٹر سے زیادہ نہیں اڑ سکتے، یہ گھروں میں پیدا ہوتے ہیں اور قریبی مقامات پر انڈے دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ڈینگی کی صورتحال کی نگرانی کے لیے این آئی ایچ ایمرجنسی آپریشن سینٹر کو فعال کیا گیا ہے اور روزانہ کی بنیادوں پر وفاقی اور صوبائی محکمہ صحت کو رپورٹ ارسال کی جاتی ہے۔

ڈاکٹر رانا صفدر نے بتایا کہ ’موسمیاتی آگاہی اور الرٹ لیٹر، ڈینگی سے بچاؤ اور اس پر قابو پانے سے متعلق ایڈوائزری کو بڑے پیمانے پر تقسیم کیا گیا ہے، وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کی زیرِ قیادت تشکیل دی گئی ٹاسک فورس ڈینگی سے متعقلق اقدامات کا روزانہ کی بنیاد پر جائزہ لے رہی ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کے نجی و سرکاری ہسپتالوں میں ڈینگی کے علاج کے لیے بستر مختص کیے گئے ہیں اور علاج کے معیار کی بھی سخت نگرانی کی جارہی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 4 نومبر 2024
کارٹون : 3 نومبر 2024