جج ارشد ملک ویڈیو کیس انسداد دہشت گردی عدالت منتقل
اسلام آباد کی سیشن عدالت کے قائم مقام جج سکندر خان نے العزیزیہ اسٹیل ملز کیس میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف فیصلہ دینے والے جج ارشد ملک کے ویڈیو کیس کو انسداد دہشت گردی عدالت منتقل کر دیا۔
جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدم موجودگی پر احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کی ویڈیو بنانے والے ملزمان حمزہ بٹ اور فیصل شاہین کو دو روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے پر ایڈیشنل سیشن جج سکندر خان کی عدالت میں پیش کر دیا گیا۔
قائم مقام سیشن جج سکندر خان نے سماعت کے دوران ملزمان کی فائل منگوائیں اور حکم دیا کہ مقدمے کو انسداد دہشت گردی عدالت منتقل کر دیا جائے۔
تفتیشی افسر سے جج نے استفسار کیا کہ آپ نے اس سے پہلے جو درخواست دی تھی وہ کیا تھی جس پر انہوں جواب دیا کہ میری درخواست ان ہی ملزمان سے متعلق تھی۔
ملزمان کے وکیل نے کیس کو انسداد دہشت گردی عدالت منتقل کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ 7 اے ٹی اے اس پر نہیں لگ سکتی جس پر جج نے کہا کہ آپ نے مقدمے میں دہشت گردی کی دفعہ لگا دی ہے تو دہشت گردی کی عدالت میں پیش کریں۔
مزید پڑھیں:جج ویڈیو اسکینڈل: ناصر بٹ کے بھتیجے، قریبی عزیز کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور
وکیل صفائی کا کہنا تھا کہ ریکارڈ کے مطابق اس مقدمے میں دہشت گردی کی دفعہ لگ ہی نہیں سکتی اور یہ کیس دہشت گردی کی تعریف پر پورا نہیں اترتا۔
قائم مقام سیشن جج نے وکیل صفائی سے کہا کہ آپ دہشت گردی عدالت میں چلے جائیں وہ خود اس حوالے سے فیصلہ کریں گے کیونکہ قانون نے دہشت گردی عدالت کو ہی سماعت کی اجازت دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آپ اسی عدالت میں جا کر دلائل دیں، اگر کیس انسداد دہشت گردی کے دائرے میں نہیں آیا تو وہ عدالت واپس بھیج دے گی۔
جج سکندر خان نے کہا کہ وکیل صفائی بتا دیں کس حیثیت سے میں مقدمے کی سماعت کروں، ہم ریمانڈ نہیں دے سکتے اس لیے آپ اس مقدمے کو انسداد دہشت گردی عدالت لے جائیں۔
وکیل صفائی نے کہا کہ میاں طارق کے کیس میں بھی دہشت گردی دفعہ لگائی گئی ہے لیکن فیصلہ ابھی نہیں ہوا تاہم عدالت نے مقدمے کو انسداد دہشت گردی عدالت منتقل کر دیا۔
بعد ازاں قومی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے ملزمان حمزہ بٹ اور فیصل شاہین کو دہشت گردی عدالت کے جج راجا جواد عباس حسن کے روبرو پیش کیا اور دونوں ملزمان کا 7 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرالیا۔
یہ بھی پڑھیں:جج ویڈیو اسکینڈل میں شریک ملزم لاپتہ، پولیس نے مقدمہ درج کرلیا
ایف آئی اے نے عدالت میں موقف اپنایا کہ ملزمان سے لیپ ٹاپ برآمدگی کے لیے 11 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کیا جائے تاہم عدالت نے 7 روز کے لیے ریمانڈ دیا۔
واضح رہے کہ ایف آئی اے نے 5 اکتوبر کو جج ارشد ملک کی ویڈیو بنانے والے ناصر بٹ کے بھتیجے حمزہ بٹ اور قریبی عزیز شعیب کوگرفتار کرکے مقامی عدالت سے 2 روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کرلیا تھا۔
قبل ازیں 7 ستمبر کو جوڈیشل مجسٹریٹ نے ویڈیو لیک کیس میں ایف آئی اے کی جانب سے دوران تفتیش کوئی ثبوت نہ ملنے کی رپورٹ کے بعد 3 ملزمان ناصر جنجوعہ، خرم یوسف اور مہر غلام جیلانی کو رہا کردیا تھا۔
عدالت کی جانب سے تینوں افراد کی رہائی پر سابق جج ارشد ملک نے 11 ستمبر کو ایف آئی اے کے چاروں عہدیداروں (ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ، اسسٹنٹ ڈائریکٹر کلیم اللہ تارڑ اور فاروق لطیف اور سب انسپکٹر فضل محبوب) کے خلاف ناقص تفتیش کی شکایت دائر کی تھی۔
بعد ازاں ایف آئی اے حکام نے سائبر کرائم عدالت کی 23 ستمبر کو ہونے والی سماعت میں بتایا تھا کہ ایف آئی اے ڈائریکٹر جنرل نے نہ صرف انکوائری سائبر کرائم ونگ سے انسداد دہشت گردی ونگ کے سپرد کردی بلکہ چاروں عہدیداروں کے خلاف نظم و ضبط کی خلاف ورزی کی کارروائی کا بھی آغاز کردیا گیا۔
جج ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل کا پس منظر
یاد رہے کہ 6 جولائی کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز پریس کانفرنس کے دوران العزیزیہ اسٹیل ملز کیس کا فیصلہ سنانے والے جج ارشد ملک کی مبینہ خفیہ ویڈیو سامنے لائی تھیں۔
مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر نے جو ویڈیو چلائی تھی اس میں مبینہ طور پر جج ارشد ملک، مسلم لیگ (ن) کے کارکن ناصر بٹ سے ملاقات کے دوران نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنس سے متعلق گفتگو کر رہے تھے۔
مریم نواز نے بتایا تھا کہ ویڈیو میں نظر آنے والے جج نے فیصلے سے متعلق ناصر بٹ کو بتایا کہ 'نواز شریف کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، فیصلے کے بعد سے میرا ضمیر ملامت کرتا رہا اور رات کو ڈراؤنے خواب آتے، لہٰذا نواز شریف تک یہ بات پہنچائی جائے کہ ان کے کیس میں جھول ہوا ہے‘۔
مزید پڑھیں: جج ارشد ملک مبینہ کی ویڈیو بنانے والا ملزم گرفتار، 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور
انہوں نے ویڈیو سے متعلق دعویٰ کیا تھا کہ جج ارشد ملک، ناصر بٹ کے سامنے اعتراف کر رہے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے، ویڈیو میں جج خود کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف ایک دھیلے کی منی لانڈرنگ کا ثبوت نہیں ہے۔
یاد رہے کہ ارشد ملک وہی جج ہیں جنہوں نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید بامشقت اور بھاری جرمانے کی سزا سنائی تھی جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں انہیں بری کردیا تھا۔
تاہم ویڈیو سامنے آنے کے بعد احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے خود پر لگنے والے الزامات کا جواب دیا تھا اور ایک پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے ویڈیو کو مفروضوں پر مبنی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس ویڈیو سے میری اور میرے خاندان کی ساکھ کو متاثر کرنے کی کوشش کی گئی۔
اس تمام معاملے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق نے 2 مرتبہ جج ارشد ملک سے ملاقات کی تھی جبکہ اس تمام معاملے سے متعلق چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان آصف سعید کھوسہ کو بھی آگاہ کیا تھا۔
بعد ازاں 12 جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا تھا اور خط لکھا تھا، جس پر وزارت قانون نے احتساب عدالت نمبر 2 کے ان جج کو مزید کام کرنے سے روک دیا تھا اور لا ڈویژن کو رپورٹ کرنے کا کہا تھا۔
اسی روز جج ارشد ملک کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک خط اور بیان حلفی جمع کروایا گیا تھا، جس میں ویڈیو میں لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا گیا تھا۔
بیان حلفی میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے بیٹے حسین نواز نے العزیزیہ ریفرنس کے فیصلے کے بعد عہدے سے استعفیٰ دینے کے لیے انہیں 50 کروڑ روپے رشوت دینے کی پیشکش کی تھی۔
جج ارشد ملک نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے نمائندوں کی جانب سے انہیں العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز میں نواز شریف کے حق میں فیصلہ دینے پر مجبور کرنے کے لیے رشوت کی پیشکش اور سنگین نتائج کی دھمکی دی گئی اور بعد ازاں عہدے سے استعفیٰ دینے پر بھی مجبور کیا گیا۔
ویڈیو لیک کیس میں عدالتی احکامات
مذکورہ ویڈیو اسکینڈل پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ میں بھی درخواست دائر کی گئی تھی۔
جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے 22 اگست کو فیصلہ سناتے ہوئے احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کو تادیبی کارروائی کے لیے واپس لاہور ہائی کورٹ بھیجنے کے احکامات جاری کیے تھے۔
یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ نے جج ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل کیس کا فیصلہ سنا دیا
دارالحکومت کی ہائی کورٹ سے جاری ہونے والے نوٹی فکیشن کے مطابق ارشد ملک کے خلاف تادیبی کارروائی لاہور ہائی کورٹ کو کرنا تھی اور اس سلسلے میں لاہور عدالت کی انتظامی کمیٹی کا اجلاس بھی ہوا تھا۔
بعدازاں 23 اگست کو سپریم کورٹ میں دائر درخواست پر محفوظ فیصلہ سنایا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے اور ایف آئی اے پہلے ہی ویڈیو کی تحقیقات کر رہا ہے اس لیے سپریم کورٹ فی الحال مداخلت نہیں کر رہی۔
علاوہ ازیں سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو دیکھنا ہوگا کہ ویڈیو کا جج کے فیصلوں پر کیا اثر پڑا، ہائی کورٹ کے پاس اختیار ہے کہ وہ احتساب عدالت کے جج کی جانب سے دیئے گئے فیصلے میں شہادتوں کا جائزہ لے کر اس سزا کو ختم کردے، وہ دستیاب شہادتوں کو سامنے رکھ کر بھی کوئی فیصلہ دے سکتی ہے، ہائی کورٹ چاہے تو فیصلے کو دوبارہ ٹرائل کورٹ بھی بھیج سکتی ہے اور ٹرائل کورٹ فریقین کو سن کر کیس سے متعلق فیصلہ کر سکتی ہے۔