• KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
  • KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm

جج ویڈیو اسکینڈل: ناصر بٹ کے بھتیجے، قریبی عزیز کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور

شائع October 5, 2019
حمزہ بٹ جج ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل کے مرکزی کردار ناصر بٹ کے مقتول بھائی عارف کا بیٹا ہے—تصویر ٹوئٹر
حمزہ بٹ جج ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل کے مرکزی کردار ناصر بٹ کے مقتول بھائی عارف کا بیٹا ہے—تصویر ٹوئٹر

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے جج ارشد ملک ویڈیو سکینڈل کے مرکزی کردار ناصر بٹ کے بھتیجے حمزہ بٹ اور قریبی عزیز شعیب کو بھی گرفتار کر نےکے بعد مقامی عدالت سے دونوں ملزمان کا 2 روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کرلیا

دونوں ملزمان کو 4 اور 5 اکتوبر کی درمیانی شب راولپنڈی کے علاقے رتہ امرال میں ان کی رہائش گاہ پر چھاپہ مار کر گرفتار کر کے ایف آئی اے ہیڈ کوارٹر اسلام آباد منتقل کیا گیا تھا۔

جس کے اگلے روز ایف آئی اے نے دونوں ملزمان کو جوڈیشل مجسٹریٹ ملک عمران کی عدالت میں پیش کیا جنہوں نے دونوں ملزمان کو 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے حوالے کردیا۔

ناصر بٹ کے چھوٹے بھائی حافظ عبداللہ نے اس حوالے سے تصدیق کی زیر حراست حمزہ بٹ جج ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل کے مرکزی کردار ناصر بٹ کے مقتول بھائی عارف کا بیٹا جبکہ شعیب قریبی عزیز ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جج ویڈیو اسکینڈل میں شریک ملزم لاپتہ، پولیس نے مقدمہ درج کرلیا

حافظ عبداللہ بٹ کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے اہلکار چھاپہ مار کارروائی کے دوران بار بار لیپ ٹاپ مانگتے رہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ناصر بٹ کے کیس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے ویڈیو سکینڈل کیس ناصر بٹ اور اس کی پارٹی کا معاملہ ہے۔

واضح رہے کہ 7 ستمبر کو جوڈیشل مجسٹریٹ نے ویڈیو لیک کیس میں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی جانب سے دوران تفتیش کوئی ثبوت نہ ملنے کی رپورٹ کے بعد 3 ملزمان ناصر جنجوعہ، خرم یوسف اور مہر غلام جیلانی کو رہا کردیا تھا۔

اس سے قبل گزشتہ ہفتے 3 افراد کو ارشد ملک کی ایف آئی آر کے بعد مبینہ طور پر بلیک میلنگ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: ویڈیو اسکینڈل: سابق جج ارشد ملک کو سیشن کورٹ میں او ایس ڈی بنا دیا گیا

قبل ازیں الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کی عدالت کے جج نے یہ حکم نامہ جاری کیا تھا کہ 7 ستمبر 2019 کو دیا گیا تینوں ملزمان کی رہائی کا حکم، انہیں بری کرنے کے لیے کافی نہیں اور ان ملزمان کو مقدمے کا سامنا کرنا پڑے گا۔

دوسری جانب ملزمان کی رہائی پر سابق جج ارشد ملک نے 11 ستمبر کو ایف آئی اے کے چاروں عہدیداروں(ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ، اسسٹنٹ ڈائریکٹر کلیم اللہ تارڑ اور فاروق لطیف اور سب انسپکٹر فضل محبوب) کے خلاف ناقص تفتیش کی شکایت دائر کی تھی۔

بعدازاں ایف آئی اے حکام نے سائبر کرائم عدالت کی 23 ستمبر کو ہونے والی سماعت میں بتایا تھا کہ ایف آئی اے ڈائریکٹر جنرل نے نہ صرف انکوائری سائبر کرائم ونگ سے انسداد دہشت گردی ونگ کے سپرد کردی بلکہ چاروں عہدیداروں کے خلاف نظم و ضبط کی خلاف ورزی کی کارروائی کا بھی آغاز کردیا گیا۔

جج ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل کا پس منظر

یاد رہے کہ 6 جولائی کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز پریس کانفرنس کے دوران العزیزیہ اسٹیل ملز کیس کا فیصلہ سنانے والے جج ارشد ملک کی مبینہ خفیہ ویڈیو سامنے لائی تھیں۔

مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر نے جو ویڈیو چلائی تھی اس میں مبینہ طور پر جج ارشد ملک، مسلم لیگ (ن) کے کارکن ناصر بٹ سے ملاقات کے دوران نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنس سے متعلق گفتگو کر رہے تھے۔

مریم نواز نے بتایا تھا کہ ویڈیو میں نظر آنے والے جج نے فیصلے سے متعلق ناصر بٹ کو بتایا کہ 'نواز شریف کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، فیصلے کے بعد سے میرا ضمیر ملامت کرتا رہا اور رات کو ڈراؤنے خواب آتے، لہٰذا نواز شریف تک یہ بات پہنچائی جائے کہ ان کے کیس میں جھول ہوا ہے‘۔

مزید پڑھیں: جج ارشد ملک مبینہ کی ویڈیو بنانے والا ملزم گرفتار، 2 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور

انہوں نے ویڈیو سے متعلق دعویٰ کیا تھا کہ جج ارشد ملک، ناصر بٹ کے سامنے اعتراف کر رہے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے، ویڈیو میں جج خود کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف ایک دھیلے کی منی لانڈرنگ کا ثبوت نہیں ہے۔

یاد رہے کہ ارشد ملک وہی جج ہیں جنہوں نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید بامشقت اور بھاری جرمانے کی سزا سنائی تھی جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں انہیں بری کردیا تھا۔

تاہم ویڈیو سامنے آنے کے بعد احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے خود پر لگنے والے الزامات کا جواب دیا تھا اور ایک پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے ویڈیو کو مفروضوں پر مبنی قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اس ویڈیو سے میری اور میرے خاندان کی ساکھ کو متاثر کرنے کی کوشش کی گئی۔

اس تمام معاملے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق نے 2 مرتبہ جج ارشد ملک سے ملاقات کی تھی جبکہ اس تمام معاملے سے متعلق چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان آصف سعید کھوسہ کو بھی آگاہ کیا تھا۔

بعد ازاں 12 جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے جج ارشد ملک کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا تھا اور خط لکھا تھا، جس پر وزارت قانون نے احتساب عدالت نمبر 2 کے ان جج کو مزید کام کرنے سے روک دیا تھا اور لا ڈویژن کو رپورٹ کرنے کا کہا تھا۔

اسی روز جج ارشد ملک کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک خط اور بیان حلفی جمع کروایا گیا تھا، جس میں ویڈیو میں لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا گیا تھا۔

بیان حلفی میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کے بیٹے حسین نواز نے العزیزیہ ریفرنس کے فیصلے کے بعد عہدے سے استعفیٰ دینے کے لیے انہیں 50 کروڑ روپے رشوت دینے کی پیشکش کی تھی۔

جج ارشد ملک نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے نمائندوں کی جانب سے انہیں العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز میں نواز شریف کے حق میں فیصلہ دینے پر مجبور کرنے کے لیے رشوت کی پیشکش اور سنگین نتائج کی دھمکی دی گئی اور بعد ازاں عہدے سے استعفیٰ دینے پر بھی مجبور کیا گیا۔

ویڈیو لیک کیس میں عدالتی احکامات

مذکورہ ویڈیو اسکینڈل پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ میں بھی درخواست دائر کی گئی تھی۔

جس پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے 22 اگست کو فیصلہ سناتے ہوئے احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کو تادیبی کارروائی کے لیے واپس لاہور ہائی کورٹ بھیجنے کے احکامات جاری کیے تھے۔

دارالحکومت کی ہائی کورٹ سے جاری ہونے والے نوٹیفکیشن کے مطابق ارشد ملک کے خلاف تادیبی کارروائی لاہور ہائی کورٹ کو کرنا تھی اور اس سلسلے میں لاہور عدالت کی انتظامی کمیٹی کا اجلاس بھی ہوا تھا۔

بعدازاں 23 اگست کو سپریم کورٹ میں دائر درخواست پر محفوظ فیصلہ سنایا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے اور ایف آئی اے پہلے ہی ویڈیو کی تحقیقات کر رہا ہے اس لیے سپریم کورٹ فی الحال مداخلت نہیں کر رہی۔

علاوہ ازیں سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو دیکھنا ہوگا کہ ویڈیو کا جج کے فیصلوں پر کیا اثر پڑا، ہائی کورٹ کے پاس اختیار ہے کہ وہ احتساب عدالت کے جج کی جانب سے دیئے گئے فیصلے میں شہادتوں کا جائزہ لے کر اس سزا کو ختم کردے، وہ دستیاب شہادتوں کو سامنے رکھ کر بھی کوئی فیصلہ دے سکتی ہے، ہائی کورٹ چاہے تو فیصلے کو دوبارہ ٹرائل کورٹ بھی بھیج سکتی ہے اور ٹرائل کورٹ فریقین کو سن کر کیس سے متعلق فیصلہ کر سکتی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024