بھارت نے امریکی سینیٹر کو مقبوضہ کشمیر جانے سے روک دیا
بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے نئی دہلی جانے والے امریکی سینیٹر کو وادی کا دورہ کرنے سے روک دیا۔
واشنگٹن پوسٹ میں شائع رپورٹ کے مطابق امریکی سینیٹر کرس ہولین نے بتایا کہ انہیں رواں ہفتے بھارت کے دورے کے دوران مقبوضہ کشمیر میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
مزیدپڑھیں: امریکا کا مقبوضہ کشمیر پر عائد پابندیاں نرم کرنے کیلئے بھارت پر دباؤ
واضح رہے کہ بھارت نے 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے سے قبل ہی وادی میں کرفیو نافذ کردیا تھا جبکہ وہاں پر تاحال مواصلات کا نظام بھی معطل ہے۔
کریس ہولین نے کہا کہ وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کی جانب وادی میں کرفیو اور مواصلات کا نظام معطل ہوئے تیسرا مہینہ شروع ہوگیا۔
واضح رہے امریکی سینیٹرز کریس ہولین ان 50 کانگریس ممبران میں شامل ہیں جو مقبوضہ کشمیر میں امن و امان اور بھارتی فوجیوں کے ظلم و ستم سے متعلق اپنے خدشات کا اظہار کرچکے ہیں۔
امریکی ریاست میری لینڈ کے ڈیموکریٹ نمائندہ کریس ہولین نے بتایا کہ وہ خود مقبوضہ کشمیر جاکر زمینی حقائق کا جائزہ لینا چاہتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی پراپیگنڈے پر سیکیورٹی کونسل کے مستقل اراکین کے وفد کو پاکستان کی بریفنگ
نئی دہلی میں اپنے انٹرویو میں امریکی سینیٹر نے بتایا کہ اگر بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر میں کچھ نہیں چھپا رہی تو لوگوں کو وادی کا دورہ کرنے سے روکنے کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ لوگ اپنی نظروں سے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کا جائزہ لینا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بھارت اور امریکا مشترکہ اقدار پر بہت بات کرتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ اس معاملے پر شفافیت کا مظاہرہ کیا جائے۔
دوسری جانب بھارتی وزارت خارجہ امور کے ترجمان نے امریکی سینیٹر کو مقبوضہ کشمیر میں جانے کی اجازت نہ دینے سے متعلق تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔
مزیدپڑھیں: کشمیر جغرافیائی مسئلہ نہیں، پاکستان کی روح کا حصہ ہے، آرمی چیف
واضح رہے کہ ستمبر میں امریکا نے بھارت پر زور دیا تھا کہ مقبوضہ کشمیر پر لگائی گئی پابندیاں فوری طور پر نرم کی جائیں اور اس کے ساتھ ہی امریکی صدر کی جانب سے ثالثی کی پیشکش کا اعادہ بھی کیا۔
امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی اعلیٰ عہدیدار برائے جنوبی ایشیا ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ ’ہم پابندیاں ختم کرنے اور حراست میں لیے گئے افراد کی رہائی کے حوالے سے فوری اقدام دیکھنے کے لیے پُرامید ہیں‘۔
علاوہ ازیں اگست میں امریکی خاتون کانگریس رکن الحان عمر نے مقبوضہ کشمیر میں کشیدگی کم کرنے اور فوری طور پر مواصلاتی رابطے بحال کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
مقبوضہ کشمیر کی صورتحال
خیال رہے کہ 5 اگست کو نریندر مودی کی حکومت نے بھارتی آئین میں کشمیر کو دی گئی خصوصی حیثیت کو ختم کر کے اس کے الحاق کا اعلان کیا تھا۔
اس اقدام کے تناظر میں کشمیری عوام کے احتجاج کے ردِ عمل کے پیش نظر بھارتی حکومت نے تقریباً ڈیڑھ لاکھ اضافی سیکیورٹی اہلکار وادی میں بھیج کر کچھ علاقوں میں کرفیو اور کہیں لاک ڈاؤن کیا تھا۔
مقبوضہ وادی میں نقل و حرکت پر پابندی کے ساتھ ساتھ بھارتی حکومت نے انٹرنیٹ، مواصلاتی روابط اور ٹیلی فون لائنز بھی منقطع کردی تھیں۔
مزیدپڑھیں: امریکی خاتون رکن کانگریس کا مقبوضہ کشمیر میں مواصلاتی رابطے بحال کرنے کا مطالبہ
اس کے علاوہ مقبوضہ کشمیر کے سیاسی و سماجی رہنماؤں سمیت ہزاروں کی تعداد میں کشمیری نوجوانوں کو گرفتار بھی کیا گیا۔
تقریباً ڈیڑھ ماہ کا عرصہ گزرجانے کے باوجود بھارتی حکومت کی جانب سے وادی میں پابندیوں کا سلسلہ جاری ہے تاہم کشمیری نوجوان مزاحمت جاری رکھتے ہوئے روزانہ احتجاج بھی کرتے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کی سنگین صورتحال پر نہ صرف مقامی اور بین الاقوامی تنظیمیں بلکہ متعدد ممالک کے رہنما بھی تشویش کا اظہار کرچکے ہیں۔