مقبوضہ کشمیر میں مصائب و آلام کے 2 ماہ
سری نگر: بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں کم عمر بچوں کی جبری حراستی، نئی دہلی مخالف احتجاج، مظاہرین پر بدترین تشدد، کاروبار کی بندش، مواصلات کی معطلی سمیت دیگر شعبہ ہائے زندگی کو مفلوج ہوئے 2 ماہ گزر گئے۔
بھارت نےمقبوضہ کشمیر میں ہزاروں کی تعداد میں اضافی فوجی بھیج کر، کرفیو اور لاک ڈاؤن نافذ کرنے کے ساتھ خطے کی اہم سیاسی شخصیات کو قید کرنے کے بعد 5 اگست کو وادی کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اسے 2 اکائیوں میں تقسیم کردیا تھا۔
فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق آرٹیکل 370 کے نفاذ کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے دعویٰ کیا تھا کہ اس غیر معمولی اقدام کا مقصد مقبوضہ وادی کو ’ایک مرتبہ پھر جنت نظیر‘ بنانا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی درد بھری داستانیں سامنے آنے لگیں
خیال رہے کہ 1989میں کشمیر پر بھارتی قبضے کے خلاف پاکستان سے الحاق یا آزادی کے حامی حریت پسندوں کی تحریک کے بعد سے اب تک ہزاروں افراد جاں بحق ہوچکے ہیں جن میں زیادہ تعداد شہریوں کی ہے۔
زمینی حقائق کے مطابق عوام بھارتی حکومت کے اس اقدام سے برہم ہیں جس کے باعث روزانہ احتجاجی مظاہرے جاری ہیں، تاجر اپنے کاروبار کھولنے سے گریزاں جبکہ بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔
دوسری جانب بھارتی حکومت کا دعویٰ ہے کہ مقبوضہ وادی کے زیادہ تر افراد اس اقدام کے حامی ہیں اور جن عناصر کی پشت پناہی پاکستان کررہا ہے صرف ان کی جانب سے مخالفت کی جارہی ہے۔
مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں سیاہ رات کی کہانی: 'تاریک کمرے میں بجلی کے جھٹکے لگائے گئے'
بھارتی سیکیورٹی فورسز فائرنگ کے واقعات میں متعدد کشمیریوں کو شہید کرچکی ہیں اور پولیس نے ہتھیاروں کی برآمدگی کا بھی دعویٰ کیا۔
پاکستانی وزیراعظم عمران خاں نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے جوہری جنگ کا انتباہ دینے کے ساتھ اس بات کا خدشہ ظاہر کیا تھا کہ بھارت مسلم اکثریت والے علاقے میں ’خون ریزی‘ کرسکتا ہے۔
یاد رہے کہ 5 اگست کے بعد سے 4 ہزار افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے جس میں 144 کم عمر لڑکے بھی شامل ہیں جبکہ ایک ہزار افراد اب بھی زیرِ حراست ہیں جس میں کچھ کو اس قانون کے تحت رکھا گیا ہے جو مشتبہ شخص کو بغیر کسی الزام کے 2 ماہ قید رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر کی معلومات تک رسائی نہ ہونا تشویشناک ہے، اقوام متحدہ
علاوہ ازیں 70 لاکھ کی آبادی پر مشتمل وادی میں ٹیلی فون سروس بحال کردی گئی تھی البتہ موبائل فون اور انٹرنیٹ سروس تاحال معطل ہے جبکہ بھارت کا اصرار ہے کہ صورتحال ’معمول کے مطابق‘ ہے۔
حکام کے مطابق 2 ماہ کے عرصے میں جھڑپوں کے نتیجے میں تقریباً 100 شہری جبکہ بھارت سیکیورٹی فورسز کے 400 اہلکار زخمی ہوئے۔
مقامی افراد حکام کو 4 افراد کی موت کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں جس میں ایک خاتون بھی شامل ہیں جو گھر میں آنسو گیس کا شیل گرنے کے باعث دم گھٹنے سے ہلاک ہوئیں۔
مزید پڑھیں: جنوبی ایشیا کی کشیدہ صورتحال پر اقوام متحدہ کا اظہار تشویش
مقبوضہ وادی کے مرکزی شہر سری نگر کے باہر ایک نوجوان نے اے ایف پی نمائندوں سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بھارتی فوجیوں نے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جبکہ بھارتی فوج نے اس کی تردید کی۔
دوسری جانب اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کے ادارے کی سربراہ مشعل بیچلیٹ نے کہا تھا کہ انہیں مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر ’سخت تشویش‘ ہے جبکہ امریکا نے بھی بھارت سے ’فوری طور‘ پر مقبوضہ کشمیر میں عائد پابندیاں اٹھانے کا مطالبہ کیا تھا۔
یہ خبر 5 اکتوبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔