• KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:51am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm
  • KHI: Zuhr 12:20pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:51am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:56am Asr 3:22pm

اسلام آباد مارچ، نواز شریف کی شہباز شریف کو اپوزیشن میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی ہدایت

شائع October 4, 2019
شہباز شریف نے جیل میں نواز شریف سے ملاقات کی—فائل فوٹو: رائٹرز
شہباز شریف نے جیل میں نواز شریف سے ملاقات کی—فائل فوٹو: رائٹرز

لاہور: جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے 27 اکتوبر کو اسلام آباد لاک ڈاؤن (آزادی مارچ) کے 'یکطرفہ' اعلان کے ساتھ ہی سابق وزیراعظم نواز شریف نے مسلم لیگ (ن) کے صدر اور اپنے چھوٹے بھائی شہباز شریف کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپوزیشن جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے پیدا کریں تاکہ 'سلیکٹڈ' پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کےلیے مشترکہ جدوجہد کا آغاز کیا جاسکے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے کوٹ لکھپت جیل میں نواز شریف سے ملاقات کی اور انہیں مولانا فضل الرحمٰن اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے ملاقاتوں اور مسلم لیگ (ن) کی مرکزی ایگزیکٹو کمیٹی کے اراکین کی آزادی مارچ پر رائے سے آگاہ کیا۔

مزید پڑھیں: آزادی مارچ کا آغاز 27 اکتوبر سے ہوگا، مولانا فضل الرحمٰن

اس ملاقات کے بعد مسلم لیگ (ن) کے ایک عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ 'میاں نواز شریف اسلام آباد لاک ڈاؤن سے متعلق جے یو آئی (ف)، مسلم لیگ (ن)، پی پی پی اور تمام چھوٹی جماعتوں میں اتفاق رائے چاہتے ہیں، انہوں نے شہباز شریف کو کہا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے پیدا کریں، ساتھ ہی انہوں نے اپنا پیغام مولانا فضل الرحمٰن کو پہنچانے کو بھی کہا کہ (جے یو آئی ف) کی جانب سے اکیلے پرواز ہوسکتا ہے مطلوبہ نتائج حاصل نہ کرسکے'۔

انہوں نے کہا کہ "اگرچہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کو مارچ کے طریقہ کار پر کچھ تحفظات ہیں لیکن میاں نواز شریف کافی پرامید ہیں کہ 3 مرکزی اپوزیشن جماعتیں 'مشترکہ بنیادوں' پر اکٹھا ہوئیں اور اس سلیکٹڈ حکومت سے چھٹکارے کے لیے مشترکہ جدوجہد کا آغاز کیا"۔

دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں کی بات چیت میں موجود ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ 'لاک ڈاؤن پر تینوں جماعتوں کے درمیان اختلاف رائے کے مرکزی نکات یہ ہیں کہ اسلام آباد میں یہ دھرنا کتنا طویل ہوگا، جمع ہونے والے سیکڑوں اور ہزاروں لوگوں کیسے کنٹرول کیا جائے گا اور اس سب کے باوجود اگر وزیراعظم عمران خان استعفیٰ نہیں دیتے مظاہرین کے پاس کیا آپشن ہوگا'۔

ذرائع نے بتایا کہ 'چونکہ اپوزیشن کے پاس امپائر کی حمایت نہیں تو وزیراعظم عمران خان دھرنے والوں کے مطالبات ماننے پر کیسے مجبور ہوں گے جبکہ (دھرنے کے تناظر میں) دارالحکومت میں افراتفری کی صورتحال دن کے اختتام پر دوسرے کھلاڑی کو فائدہ پہنچا سکتی ہے'۔

یہ بھی پڑھیں: لیگی وفد کی مولانا فضل الرحمٰن کو آزادی مارچ کی تاریخ میں توسیع کی تجویز

ان کا کہنا تھا کہ بنیادی طور پر تمام اپوزیشن جاعتیں عمران خان کو گھر بھیجنے پر متفق ہیں لیکن مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کو اصل ڈر دھرنے کی ناکامی کا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'ہم نے مولانا فضل الرحمٰن کو کہا تھا کہ ہمیں مسلط وزیراعظم کو ہٹانے کے لیے ایک مضبوط پلان کی ضرورت ہے بصورت دیگر ناکام کوششیں انہیں غالب ہونے کے لیے مزید تقویت دے سکتی ہیں'۔

واضح رہے کہ اس سے قبل مسلم لیگ (ن) نے جے یو آئی ف کو مارچ کو ایک ماہ ملتوی کرنے کا کہا تھا تاکہ مرکزی اپوزیشن جماعتیں حکومت کو ہٹانے کے لیے اپنے کارکنان کو متحرک کرسکیں۔

کارٹون

کارٹون : 28 نومبر 2024
کارٹون : 27 نومبر 2024