• KHI: Fajr 5:36am Sunrise 6:56am
  • LHR: Fajr 5:14am Sunrise 6:39am
  • ISB: Fajr 5:22am Sunrise 6:49am
  • KHI: Fajr 5:36am Sunrise 6:56am
  • LHR: Fajr 5:14am Sunrise 6:39am
  • ISB: Fajr 5:22am Sunrise 6:49am

’پاکستان پینل کوڈ میں عمر قید کی مدت کا تعین نہیں کیا گیا‘

شائع October 3, 2019
چیف جسٹس کے مطابق ’تا عمر قید‘ اور ’عمر قید‘ کی تشریح پاکستان کے کسی قانون میں نہیں کی گئی —فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
چیف جسٹس کے مطابق ’تا عمر قید‘ اور ’عمر قید‘ کی تشریح پاکستان کے کسی قانون میں نہیں کی گئی —فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد: چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا ہے کہ ’قید کا قانون‘ کس طرح اس بات کا تعین کرسکتا ہے کہ عمر قید کی سزا 25 برس ہوگی؟

سپریم کورٹ کے 7 ججز پر مشتمل لارجر بینچ کی سربراہی کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’کس بنیاد پر پاکستان پرزنز رول میں یہ لکھا گیا کہ عمر قید کی سزا 25 برس ہوگی جبکہ پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) میں عمر قید کی کوئی مدت متعین نہیں کی گئی‘۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق لارجر بینچ خصوصی طور پر عمر قید کی مدت کا معاملہ حل کرنے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا کہ آیا اسے 25 برس ہی رہنا چاہیے یا مجرم کو تا عمر قید کردینا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: عمر قید کی مدت کتنی ہونی چاہیے؟ چیف جسٹس نے نوٹس لے لیا

اس حوالے سے چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ اس الجھن کو دور کرنا مقننہ کی ذمہ داری ہے۔

خیال رہے کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ کی توجہ کا مرکز اس وقت بنا جب چیف جسٹس نے مختلف بینچز کی سربراہی کرتے ہوئے ایک شخص ہارون رشید کے مقدمے کی سماعت کی، جسے دو مختلف مقدمات میں 12 مرتبہ عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی لیکن عدالت کو اس بات کا تعین کرنا تھا کہ یہ سزا مسلسل ہونی چاہیے یا ساتھ ساتھ چلنی چاہیے۔

واضح رہے کہ ہارون رشید 1997 سے جیل میں قید ہیں اور 22 سال کی سزا کاٹ چکے ہیں، ان کے وکیل کے مطابق عدالت نے مختلف سزاؤں پر ایک ساتھ عملدرآمد کی اجازت دی تھی۔

مزید پڑھیں: عمر قید کا مطلب 25 برس نہیں تاحیات قید ہے، چیف جسٹس

کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ہم کس طرح کسی مجرم کی عمر قید کی مدت کا تعین کرسکتے ہیں جبکہ کسی کو علم نہ ہو کہ وہ کب تک زندہ رہے گا‘۔

چیف جسٹس نے بھارتی عدالت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہاں ’عدالتی انقلاب‘ کے تحت 14 سال بعد مجرم اپنی سزا کی معافی کی درخواست دے سکتا ہے لیکن پاکستانی قانون میں یہ مدت 15 سال ہے۔

اسی دوران ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب قاسم نواز چوہان نے عدالت میں ایک تفصیلی وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’تا عمر قید‘ اور ’عمر قید‘ کی تشریح پاکستان کے کسی قانون میں نہیں کی گئی البتہ ’زندگی‘ اور ’قید‘ کو علیحدہ علیحدہ بیان کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 23 سال بعد سزائے موت کے ملزمان کی سزا عمر قید میں تبدیل

ان کا کہنا تھا کہ پی پی سی کی دفعہ 45 میں زندگی کا مطلب ’انسان کی زندگی‘ بیان کی گئی ہے اور اس وجہ سے پاکستان پینل کوڈ کے تحت عمر قید کا مطلب پوری زندگی قید تصور کیا جانا چاہیے‘۔

سماعت میں سپریم کورٹ نے کیس کی مزید کارروائی اس وقت ملتوی کردی جب وکیل نے درخواست واپس لینے کا عندیہ دیا کیوں کہ ملزم کے پاس اب بھی 2 کیسز میں سے ایک میں نظرِ ثانی کی اپیل دائر کرنے کا موقع موجود تھا جبکہ دوسرا کیس مکمل ہوچکا تھا۔

بعدازاں عدالت نے وکیل کو نظر ثانی کی درخواست دائر کرنے تک سماعت میں تاخیر کی درخواست دینے کی ہدایت کی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 24 نومبر 2024
کارٹون : 23 نومبر 2024