پاکستان اور طالبان کا افغان مفاہمتی عمل کی جلد بحالی پر اتفاق
اسلام آباد: افغانستان میں تقریباً 2 دہائیوں سے جاری تنازع کو سیاسی طور پر حل کرنے کی ازسر نو کوشش کے تحت پاکستانی حکام اور طالبان رہنماؤں کے درمیان دفترخارجہ میں ملاقات ہوئی۔
رپورٹس کے مطابق قطر کے دارالحکومت دوحہ میں موجود طالبان کے سیاسی دفتر کے چیف ملا عبدالغنی کی سربراہی میں 12 رکنی طالبان وفد حکومت پاکستان کی دعوت پر اسلام آباد پہنچا تھا۔
دفتر خارجہ میں وفد کی آمد کے موقع پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے استقبال کیا، ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہنے والی اس ملاقات کے دوران خطے کی صورتحال اور افغان امن عمل سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
دفتر خارجہ سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق ملاقات میں افغان طالبان کے اعلیٰ سطح کے وفد نے میزبانی اور افغان امن عمل میں پاکستان کے مصالحانہ کردار کی تعریف کی اور دونوں فریقین نے مذاکرات کی جلد بحالی کی ضرورت پر اتفاق کیا۔
دفتر خارجہ میں ہونے والی اس ملاقات میں انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید، سیکریٹری خارجہ سہیل محمود اور دفتر خارجہ کے دیگر اعلیٰ عہدیدار بھی موجود تھے۔
اس موقع پر وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے مابین دو طرفہ برادرانہ تعلقات، مذہبی ثقافتی اور تاریخی بنیادوں پر استوار ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: 'افغان طالبان کا وفد آج اسلام آباد کا دورہ کرے گا'
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان، صدق دل سے سمجھتا ہے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں اور افغانستان میں قیام امن کیلئے "مذاکرات" ہی مثبت اور واحد راستہ ہے جبکہ ہمیں خوشی ہے کہ آج دنیا، افغانستان کے حوالے سے ہمارے موقف کی تائید کر رہی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ گزشتہ 40 برس سے افغانستان میں عدم استحکام کا خمیازہ دونوں ممالک یکساں طور پر بھگت رہے ہیں، پاکستان خوش دلی کے ساتھ گزشتہ 4 دہائیوں سے لاکھوں افغان مہاجرین بھائیوں کی میزبانی کرتا چلا آ رہا ہے۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان نے افغان امن عمل میں مشترکہ ذمہ داری کے تحت نہایت ایمانداری سے مصالحانہ کردار ادا کیا ہے کیوں کہ پرامن افغانستان پورے خطے کے امن و استحکام کے لیے ناگزیر ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ فریقین مذاکرات کی جلد بحالی کی جانب راغب ہوں تاکہ دیرپا اور پائیدار امن و استحکام کی راہ ہموار ہو سکے۔
مزید پڑھیں: ’افغان اور طالبان حکومت کے درمیان مذاکرات ہونے تک کابل میں امن نہیں ہوسکتا‘
وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے واضح کیا کہ پاکستان، افغان امن عمل کو کامیاب بنانے کے لیے اپنا مصالحانہ کردار صدق دل سے ادا کرتا رہے گا۔
طالبان وفد کے دیگر 11 افراد میں ملا فاضل اخوند، محمد نبی عمری، عبدالحق و ثیق، خیر اللہ خیرخواہ، امیر خان متقی مطیع الحق خالص، عبدالسلام حنیفی، ضیا الرحمٰن مدنی، شہاب الدین دلاور اور سید رسول حلیم شامل ہیں۔
سرکاری ٹیلی ویژن کی رپورٹ کے مطابق دفتر خارجہ میں ہونے والی اس ملاقات میں پاکستانی وفد کی سربراہی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کی۔
علاوہ ازیں طالبان کا 12رکنی وفد آج وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ساتھ اعلی حکومتی شخصیات سے اہم ملاقاتیں کرے گا جبکہ وفد کی امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد سے بھی ملاقات کا قوی امکان ہے۔
واضح رہے کہ امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد 5 رکنی امریکی وفد کے ساتھ گزشتہ 3 روز سے اسلام آباد میں موجود ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دفتر خارجہ نے ایک بیان میں طالبان کے سیاسی دھڑے کے دورے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’یہ طالبان امریکا امن مذاکرات کے تحت اب تک ہونے والے پیش رفت پر نظر ثانی کرنے اور افغان مفاہمتی عمل کو بحال کرنے کے کا موقع ہے‘۔
خیال رہے کہ دونوں وفود آئندہ کچھ روز تک اسلام آباد میں رہیں گے، اس دوران علیحدہ علیحدہ پاکستانی رہنماؤں سے ملاقاتیں کریں گے اور مذاکرات کی بحالی پر سمجھوتہ ہونے کی صورت میں آپس میں بھی ملاقات کرسکتے ہیں۔
اس سلسلے میں طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ ‘اگر زلمے خلیل زاد یہاں موجود ہیں اور ملنا چاہتے ہیں تو ہم بھی اس کے لیے تیار ہیں‘۔
اس ضمن میں ایک سینئر سفارتی تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ امریکی نمائندوں اور طالبان وفد کا دورہ، دونوں فریقین کے مابین مذاکرات کی بحالی کا پیش خیمہ ہے۔
مزید پڑھیں؛ طالبان سے مذاکرات کی بحالی کیلئے زلمے خلیل زاد اسلام آباد میں موجود
دوسری جانب ایک اور سفارتی ذرائع کا کہنا تھا کہ طالبان، امریکا کے ساتھ مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے خواہش مند ہیں تاہم امریکا، افغانستان میں جنگ بندی اور مذاکرات میں افغان حکومت کی شمولیت کی شرائط پر بات چیت بحال کرنا چاہتا ہے۔
امریکا کے ساتھ ہونے والے ممکنہ سمجھوتے میں طالبان کے موقف کے حوالے سے سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ ’اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی، ہم وہیں ہیں جہاں تھے‘، جہاں تک ہمارے تحفظات کی بات ہے ہم سمجھتے ہیں کہ ڈرافٹ ہونے والے سمجھوتے میں ہمارے تمام تر تحفظات کا خیال رکھا گیا تھا جس میں غیر ملکی افواج کو انخلا کی صورت میں محفوظ راستہ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کی یقین دہانی شامل ہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی'۔
افغان امن عمل منسوخ ہونے کے بعد اب تک کیا ہوا؟
یاد رہے کہ 8 ستمبر کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ اعلان کر کے سب کو حیران کردیا تھا کہ انہوں نے سینئر طالبان قیادت اور افغان صدر اشرف غنی کو کیمپ ڈیوڈ میں ملاقات کی دعوت دی تھی، تاہم آخری لمحات میں انہوں نے طالبان کے ایک حملے میں ایک امریکی فوجی کی ہلاکت پر یہ مذاکرات منسوخ کردیے تھے۔
اس پر ردِ عمل دیتے ہوئے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے مذاکرات کا سلسلہ معطل کردیا تاہم اب امریکا کو پہلے کے مقابلے میں زیادہ ’غیر معمولی نقصان‘ کا سامنا ہوگا لیکن پھر بھی مستقبل میں مذاکرات کے لیے دروازے کھلے رہیں گے۔
امریکا کے ساتھ مذاکرات منسوخ ہونے کے بعد طالبان وفد 14 ستمبر کو روس بھی گیا تھا، جس کے بارے میں طالبان رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا تھا کہ دورے کا مقصد امریکا کے ساتھ مذاکرات بحال کرنے کی کوشش نہیں بلکہ امریکا کو افغانستان سے انخلا پر مجبور کرنے کے لیے علاقائی حمایت کا جائزہ لینا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: افغان امن مذاکرات معطل: طالبان کی امریکا کو سخت نتائج کی دھمکی
بعد ازاں طالبان وفد نے 29 ستمبر کو بیجنگ کا دورہ کیا تھا اور چینی نمائندہ خصوصی ڈینگ ژی جون سے ملاقات کی تھی۔
ان مذاکرات کی معطلی سے قبل قطر کے دارالحکومت دوحہ میں جاری مذاکراتی عمل کے حوالے سے امریکی اور طالبان نمائندوں نے بتایا تھا کہ انہوں نے ایک طریقہ کار پر اتفاق کیا جسے جلد حتمی شکل دے دی جائے گی۔
لہٰذا اگر یہ معاہدہ ہوجاتا تو ممکنہ طور پر امریکا، افغانستان سے اپنے فوجیوں کو بتدریج واپس بلانے کا لائحہ عمل طے کرتا جبکہ طالبان کی جانب سے یہ ضمانت شامل ہوتی کہ افغانستان مستقبل میں کسی دوسرے عسکریت پسند گروہوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ نہیں ہوگا۔