سعودی عرب سے مذاکرات کیلئے تیار ہیں، ایرانی اسپیکر
ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر علی لاریجانی نے کہا ہے کہ تہران خطے میں اپنے حریف سعودی عرب سے مذاکرات شروع کرنے کے لیے تیار ہے۔
قطری نشریاتی ادارے 'الجزیرہ' کو دیے گئے انٹرویو میں علی ریجانی کا کہنا تھا کہ ‘ایران خطے میں سعودی عرب کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک سے بھی مذاکرات کے لیے تیار ہے، ایران اور سعودی عرب کے مذاکرات سے خطے میں سلامتی اور کئی سیاسی مسائل حل ہوسکتے ہیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات کو ملک میں فتح کے طور پر دیکھا جائے گا اور سعودی عرب کو صرف اپنے بڑے اتحادی امریکا پر انحصار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
مزید پڑھیں: سعودی عرب، ایران کے درمیان جنگ عالمی معیشت کیلئے تباہ کن ہوگی، ولی عہد
علی لاریجانی نے کہا کہ ‘وہ دیکھیں گے کہ ایران کی حکمت عملی کام کر رہی ہے، ایران ایک مضبوط فوجی طاقت ہے اور جو ممالک ایران کے دوست نہیں ہیں ان کے لیے عسکری تنازع کے بجائے مذاکرات سود مند ہیں’۔
انہوں نے کہا کہ ‘ہماری طرف سے پیشگی شرائط کے بغیر ریاض مذاکرات کی میز پر اپنی تجاویز کو بحث کے لیے پیش کر سکتا ہے’۔
سعودی عرب کے موقف کو خوش کن قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ‘سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی مذاکرات کی خواہش کا ہم بھی خیر مقدم کرتے ہیں اور یہ جان کر اچھا لگا کہ سعودی عرب سب سے پہلے خطے کا مفاد چاہتا ہے’۔
خیال رہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے دو روز قبل اپنے ایک بیان میں تیل کی قیمتوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ کسی قسم کے تصادم کی صورت میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
محمد بن سلمان نے کہا تھا کہ ‘خطہ دنیا کی توانائی میں تقریباً 30 فیصد، عالمی تجارت میں تقریباً 20 فیصد اور دنیا کی جی ڈی پی کا تقریباً 4 فیصد کا شراکت دار ہے’۔
عراق کے وزیراعظم عادل عبدالمہدی نے سعودی عرب کے دورے میں فرمان روا شاہ سلمان سے مذاکرات کے بعد اپنے بیان میں کہا تھا کہ جنگ سے گریز خطے میں ہر کسی کے مفاد میں ہے اور کسی قسم کی افراتفری پورے خطے کو تباہ کردے گی۔
یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب کی دو بڑی آئل فیلڈز پر حوثی باغیوں کے ڈرون حملے
علی لاریجانی نے یمن کے حوالے سے کہا کہ ایران نے یمن کے حوثی باغیوں سے مطالبہ کیا تھا کہ سعودی عرب سے جنگ بندی کے کسی معاہدے کو قبول کرلیا جائے اور یہ سعودی عرب کے مفاد میں بھی ہے۔
یاد رہے کہ یمن میں 2015 سے سعودی عرب کی سربراہی میں اتحادی حوثی باغیوں کے خلاف لڑ رہے ہیں جہاں اب تک ہزاروں افراد جاں بحق اور لاکھوں متاثر ہوچکے ہیں۔
حوثی باغیوں نے گزشتہ ہفتے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے ایک جھڑپ کے دوران سعودی فوجیوں کو گرفتار کر لیا ہے۔
اس سے قبل سعودی عرب، امریکا اور یورپی ممالک ایران پر حوثی باغیوں کی مدد کا الزام عائد کرتے رہے ہیں تاہم تہران ان الزامات کو مسترد کرتا رہا ہے۔
ایران اور سعودی عرب کے تعلقات میں شدید کشیدگی گزشتہ ماہ سنگین صورت حال اختیار کرگئی تھی جب حوثی باغیوں نے سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر ڈرون حملوں کا دعویٰ کیا تھا۔
سعودی عرب اور امریکا نے ان حملوں کی ذمہ داری بھی ایران پر عائد کردی تھی جبکہ سعودی عرب نے مبینہ طور پر ایرانی ساختہ ڈرون بھی دکھائے تھے، لیکن ایران نے ان الزامات کو بھی مسترد کردیا تھا۔